اپنی اپنی الگ زبان میں شور
ہے زمینوں کا آسمان میں شور
در و دیوار کان کیا رکھتے ؟
روز ہوتا ہے اس مکان میں شور
کوئی شے ہاتھ لگ نہیں پاتی
گر شکاری کرے مچان میں شور
اے جُنوں خیز وقت تُو ہی بتا
کب گھٹے گا مرے گمان میں شور
تیز لہروں پہ جھُولتی کشتی
پھر ہواؤں کا بادبان میں شور
میری باری سے مجھ کو کہنے دے
مت مچا میری داستان میں شور
اس کا پرچہ قبول ہوتا نہیں
جو کرے اپنے امتحان میں شور
جانے کیا کھنکھناتی مٹی تھی
اب بھی اُٹھتا ہے خاکدان میں شور
ان کہی ان سنی کا دکھ ہے مجھے
خامشی کا ہے میرے کان میں شور
دور سے آ رہی تھی اک آواز
بڑھ گیا اور درمیان میں شور
یوں مری بات رائیگاں ہی رہی
جیسے مچھلی کا مرتبان میں شور
صائمہ آفتاب