گرم مجھ سوختہ کے پاس سے جانا کیا تھا
آگ لینے مگر آئے تھے یہ آنا کیا تھا
برسوں یک بوسۂ لب مانگتے جاتے ہیں ہمیں
رات آتے ہی کہا تم نے جو مانا کیا تھا
دیکھنے آئے دم نزع لیے منھ پہ نقاب
آخری وقت مرے منھ کا چھپانا کیا تھا
جب نہ تب مرنے کو تیار رہے عشق میں ہم
جی کے تیں اپنے کبھو ہم نے نہ جانا کیا تھا
مدعی ہوتے ہیں اک آن میں اب تو دلدار
مہر جب رسم تھی یارب وہ زمانہ کیا تھا
عزت و عشق کہاں جمع ہوئے اے ہمدم
ننگ خواری تھا اگر دل کا لگانا کیا تھا
گر خط سبز سے اس کے نہ تمھیں تھی کچھ لاگ
پھر بھلا میر جی یہ زہر کا کھانا کیا تھا
میر تقی میر