کیوں مرے خواب پریشاں نہیں ہونے دیتے
کیوں مجھے ذات پہ حیراں نہیں ہونے دیتے
کیوں مرے پھیلے ہوئے ہاتھ ہیں خالی اب تک
کیوں مرے بخت کا ساماں نہیں ہونے دیتے
ہم تری کھوج میں اِک اور خدا کو پرکھیں
ہم کو اتنا بھی تو ناداں نہیں ہونے دیتے
پہلے مسجودِ ملائک بھی بناتے ہو مجھے
پھر مکمل مرا ایماں نہیں ہونے دیتے
خود براھیم سے کرتے ہو تقاضا پہلے
پھر کوئی جان بھی قرباں نہیں ہونے دیتے
خود کو بھی تم نے چھپا رکھا ہے سو پردوں میں
اور کسی بت کو بھی یزداں نہیں ہونے دیتے
میں تجھے وہم کے رستے سے یقیں تک پرکھوں
یوں بھی پورا مرا ارماں نہیں ہونے دیتے
تم سرِ طور بلا کر بھی جلا دیتے ہو!
تم کبھی دید کا امکاں نہیں ہونے دیتے
ہم اگر موت کو مانگیں تو خفا ہوتے ہو!
اور پھر زیست بھی آساں نہیں ہونے دیتے
شازیہ اکبر