سانپ ہوں نا، اس لئے ڈستا ہوں میں
آج کے انسان سے اچھا ہوں میں
بن گئی دلہن کسی کی تُو مگر
دل میں یترے آج بھی بستا ہوں میں
آگیا ہوں دام میں ہر ایک کے
کس قدر بازار میں سستا ہوں میں
تیری چاہت میں ہوا ہے حال یہ
بے سبب روتا، کبھی ہنستا ہوں میں
ہوں بُروں کے واسطے میں بھی بُرا
یہ نہ سمجھو کہ بہت اچھا ہوں میں
آج بھی پہنا ہے میں نے وہ لباس
جس کو پہنوں تو تجھے جچتا ہوں میں
سوزؔ جو رکھتا ہے جیسا بھی گماں
اُس کی نظروں میں تو بس ویسا ہوں میں
محمد علی سوزؔ