گردشِ رنگ
یہ اب کیا ہورہا ہے کہ نفرت کا بول بالا ہے
اب نفرت کو کئی ہتھیار مل گئے ہیں
وہ وار کرتی ہے اور صرف وار کرتی ہے
اور اپنے بے شمار ہتھیاروں کا صرف ہونا باور کراتی ہے
تو کیا محبت اپاہج اور اپنگ ہے
وہ کسی کو اپنا ہونا باور نہیں کراسکتی
کیا موت کی غلامی میں ماں باپ اور اولاد
سبھی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں
کبھی کبھی تو یوں لگتاہے کہ شاید خاتمہ کی بے آواز گھنٹی
پتہ نہیں باہریا اندر کہا ں سنائی دے رہی ہے
مگر اس رات کو کیا اِسم دیا جاسکتاہے
جب کچھ بھی سننے اور پھر بھی کچھ نہ سننے کے درمیان
زمین یا اُس کی دنیا کہیں نہ کہیں ہوتی ہے
اس طرح کہ مٹی مٹی میں انوپ ہورہی ہوتی ہے
پانی پانی میں مل رہا ہوتاہے
گویا
گھڑی بھر کو نہ سویا جاسکتا ہے اور نہ جاگا جاسکتاہے
احمد ہمیش