استنبول کی ایک پرسکون صبح تھی۔ کھڑکی کے پار بوسفرس کے پانی کی لہریں دھوپ میں چمک رہی تھیں، اور ہوا میں ہلکی سی خوشبو تھی جیسے تازہ گلابوں کی۔ عالیہ، ایک مشہور پیانو نواز، اپنے ہال کے مرکز میں سیاہ رنگ کے شاندار گرینڈ پیانو کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کا سبز لباس روشنی میں یوں چمک رہا تھا جیسے زمرد ہو۔ کمرے کے ایک کونے میں جلتے موم بتیوں کا ہلکا سا نور پورے منظر کو خوابناک بنا رہا تھا۔
عالیہ کے لمبے، سیاہ بال اس کے کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے، اور اس کے ہاتھ پیانو کی سفید و سیاہ چابیوں پر ایسے رواں تھے جیسے ہوا پانی کی سطح پر ہلکورے لے۔ وہ اپنے پسندیدہ ترک گیت کی دھن بجا رہی تھی، ایک ایسی دھن جو اس کے دل کے نہاں گوشوں کو چھو رہی تھی۔ لیکن آج کی دھن میں ایک خاص تڑپ تھی، ایک بے نام انتظار کا رنگ۔
یکدم دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ عالیہ نے مڑ کر دیکھا تو کرم اندر داخل ہو رہا تھا۔ کرم ایک نوجوان شاعر تھا، جس کے الفاظ میں محبت اور درد کی کہانیاں چھپی تھیں۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا تحفہ تھا، جسے دیکھ کر عالیہ کے چہرے پر ہلکی مسکان آ گئی۔
"یہ تمہارے لیے،” کرم نے نرمی سے کہا اور تحفہ پیانو کے کنارے پر رکھ دیا۔ عالیہ نے تحفہ کھولا تو اندر ایک چھوٹا سا نوٹ اور ایک نایاب ترک کنگن تھا۔ نوٹ پر صرف دو الفاظ لکھے تھے: "میری دھن”۔
عالیہ کی آنکھوں میں حیرت اور خوشی کا امتزاج تھا۔ "کرم، یہ…؟” اس نے آہستگی سے پوچھا، لیکن اس کے الفاظ رک گئے۔ کرم نے پیانو کے قریب بیٹھ کر کہا، "میں چاہتا ہوں کہ تم اس دھن کو مکمل کرو۔ یہ ہماری کہانی ہے، تمہارے ہنر اور میری شاعری کی۔”
عالیہ نے مسکراتے ہوئے دوبارہ پیانو بجانا شروع کیا، لیکن اب دھن میں کرم کے الفاظ شامل ہو چکے تھے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے، اور ان کے درمیان محبت کی ایک ان کہی زبان چل رہی تھی۔ کمرے کی دیواریں، موم بتیاں، اور پیانو کے تار سب ان کے جذبات کے گواہ بن گئے۔
جب دھن مکمل ہوئی، تو کرم نے آہستگی سے کہا، "عالیہ، تم نے میرے خوابوں کو حقیقت بنا دیا۔ کیا ہم دونوں اس دھن کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے؟”
عالیہ نے جواب دیا، "یہ دھن ہماری کہانی ہے، کرم۔ اور دنیا کے ہر کونے میں محبت کی کہانیاں سنانے کے لیے تیار ہوں۔”
اس لمحے میں، استنبول کا شہر، بوسفرس کی لہریں، اور پیانو کی آواز سب ایک ہو گئے۔ اور عالیہ اور کرم کی کہانی ہمیشہ کے لیے موسیقی کے انمول نوٹوں میں قید ہو گئی۔
شاکرہ نندنی