جب میں چھوٹا تھا
ان دنوں ہم جہانگیرآباد میں رہا کرتے تھے۔ہم لوگوں کا وہاں ایک پرانا لیکن بہت بڑا مکان ہوتا تھا، جسے ہم پرتھوی بل کہا کرتے تھے۔ پرتھوی بل زمین کی طاقت، ہر جگہ بالعموم یکساں ہوتی ہے۔ لیکن شہر کی مٹی میں ہمیں وہ طاقت نہیں ملتی، جو پرتھوی بل میں میسر آتی تھی۔ وہاں کی کشش ثقل، ایک چیز ہی علاحدہ تھی۔
قدرت کی ہر اچھی چیز پرتھوی بل کے عین قریب مل جاتی تھی۔ ابھی کروندے کا خیال آیا، باہر آ کر دیکھا تو بوادتا اچارج، جو پھل بیچنے کے علاوہ مر جانے والوں کی آخری رسوم ادا کرتا ہے، کروندے اور سنگاڑے بیچ رہا ہے۔ اگر اڑد یا کمرکھ کے متعلق سوچا تو وہ باہر موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے ہماری سوچ چند ایک کھٹے میٹھے پھلوں اور چند ایک لغو قسم کے کھلونوں تک محدود ہو، تاہم سب کچھ ہم تک اپنے آپ کھنچا چلا آتا تھا۔
ہمارے گھر کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی ندی بہا کرتی تھی جس کے دونوں کناروں پر ایک ذخیرہ تھا۔ ہماری کہانیوں کے جن دیو اور پریاں، سب اس چھوٹے سے ذخیرے میں رہا کرتی تھیں۔ ہماری نگاہ ہمیشہ اس ذخیرے میں الجھ جاتی تھی اور جس طرح گھر کر آتے ہوئے بادلوں میں بچی کو اپنی مرضی کی شبیہ مل جاتی ہے، اسی طرح اس ذخیرے کی ہر شاخ، ہر پتہ ہمارے دل کی کہانی بن جاتا تھا۔ جب ہم بچے پرتھوی بل کے کھلے آنگن میں کبڈی ،بارہ گٹال اور شاہ شٹاپو کھیلتے ہوئے تھک جاتے اور دماغ ایک نیا کھیل ایجاد کر لینے سے عاجز آ جاتا، تو ہم ندی میں نہانے کے لیے چلے جاتے۔ حالاں کہ وہاں جانا منع تھا۔ لیکن تمام ممنوعہ چیزوں کو آزمانا ،مثلا سلائی کی مشین کی ہتھی کو گھمانا، عشق پیچاں کو قینچی سے کاٹ ڈالنا، ہمارا محبوب ترین شغل تھا۔
کسی نے کہا ہے چھ سال کی عمر میں بچوں کے جسم خوراک سے، اور دل تجربہ سے بڑے ہوتے ہیں، لیکن ان کا تخیل، ان کا شعور، مکاشفے سے بڑھتا ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ، نصیحت ان کے لیے بالکل بے معنی ہوتی ہے۔ ان کے شعور کے کسی کونے میں بھک سے اڑ جانے والا ایک جذباتی مادہ ہوتا ہے، جسے معمولی طور پر چھو دینے سے ان کا تصور ایک نیا رنگ ، ایک نئی حد، یا دونوں وضع کر لیا کرتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کے سیلاب امڈ آتے ہیں۔ ان کے سپنوں کے رنگ چند نہ مٹنے والے نقوش اختیار کر لیتے ہیں۔
باوا لوگوں کے اس برے کنبے میں، سب سے چھوٹا میں تھا ۔جب میں چھ برس کا تھا تو میرے والد کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہو گی۔ میرے والد کو نزلے کی دیرینہ شکایت تھی۔ وہ کچھ گنگنا کر بولتے تھے۔ ان کا دماغ آسانی سے خوشبو یا بدبو میں تمیز نہیں کرسکتا تھا۔ کبھی کبھی ان کی باتوں پر لوگ منھ پھیر کر ہنس دیتے تھے۔ میں ہنسا بھی تھا، اور افسوس بھی کرتا تھا۔ بو باس کے دماغ میں نہ سمانے پر اکثر انھیں خود بھی اپنے آپ پر رحم آیا کرتا تھا۔ نزلے کی وجہ سے ان کے سر اور داڑھی کے بال برف کی طرح سفید ہو چکے تھے، اگرچہ وہ جسمانی لحاظ سے کافی تنومند تھے۔ بیساکھی کے ارد گرد ہمارے گانو میں کسی نہ کسی کے ہاں ضرور بچہ پیدا ہو جایا کرتا تھا، اور وہ اپنے بچے کا نام رکھوانے کے لیے میرے والد کے پاس آیا کرتے تھے، اور والد صاحب بچے کا نام عمر دین، خیرو دین، نانک چند، فاطمہ وغیرہ رکھ دیا کرتے تھے، اور سب لوگوں کو وہ نام قبول ہوتا تھا۔ یہ نام اکثر بیساکھی کے روز رکھا جاتا تھا اور شیرینی بانٹی جاتی تھی۔ بیساکھی کی ہوا ،جو گندم کو اس کے خوشے سے الگ کرتی ہے، ان کی نرم، ملائم اور سفید ڈاڑھی کو دو گچھوں میں بانٹ کر دونوں شانوں پر پھینک دیتی تھی۔ اور یہ نظارہ ہمارے دل میں ایک قسم کی ٹھنڈک اور پاکیزگی پیدا کرتا تھا۔
میرے والد کنبہ کے سب بچوں کو اکٹھا کر لیا کرتے تھے، اور ان کے شور و غل سے بچنے کے لیے انھیں کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ ان کی کہانی عام طور پر ان کی زندگی کے کسی خاص واقعہ سے تعلق رکھتی تھی اور اس میں اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتا تھا۔ کہانی عموما یوں شروع ہوتی تھی۔
’’جب میں چھوٹا تھا تو۔‘‘
میرے خیال میں بہت سے ماں باپ اور بہت سے بزرگ اپنے بچوں کو کہانی سناتے ہوئے اس فقرے سے شروع ہوتے ہیں جب میں چھوٹا تھا یا چھوٹی تھی۔ اور انجام کار یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگ بچپن ہی سے مضبوط ارادے کے مالک تھے اور سچائی کے پتلے تھے۔ انھوں نے کبھی شرم و حیا کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ کبھی جھوٹ نہیں بولا اور بڑوں کے سامنے کبھی گستاخی سے پیش نہیں آئے۔ ان کے اخلاق کی بڑائی ان کے بچپنے کی ہر حرکت سے ظاہر تھی۔ ایسی باتیں سن کر میرا جی بھی یہی چاہتا کہ ان کی مانند نیک بن جاؤں۔ یہی میرا مطمح نظر تھا۔ مجھے اپنے والد، ایک بہت بڑی شخصیت دکھائی دیتے تھے، یا دوسرے لفظوں میں وہ ایک عظیم طاقت تھے، جس سے ضلع کا بڑے سے بڑا حاکم بھی انکار نہیں کرسکتا تھا۔ جہانگیرآباد کے سب آدمی ان کے سامنے تعظیما سر جھکا دیتے تھے اور ’’بڑے بابا‘‘ کے سوا اور انھیں کسی لقب سے یاد نہیں کرتے تھے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ میرے ہی باپ ہیں،لیکن وہ ایک تقدس مآب بزرگیت کی وجہ سے قصبہ کے سب لوگوں کے باپ۔ ایک پتامہا دکھائی دیتے تھے، جیسے خدا کل عالم کا باپ اور ایک پتامہا ہے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے، میرے والد نے خود ہی ایک عام پدرانہ سی پر شفقت روش اختیار کر رکھی تھی۔ کسی چھوٹے کے نزدیک آنے سے ان کا دایاں ہاتھ اپنے آپ آشیرواد کے لیے اٹھ جاتا تھا۔ یہ کس قدر ظلم تھا کہ اس عام پدرانہ روش میں پہلے جان بوجھ کر اور پھر عادتا انھوں نے اپنے بہت سے قدرتی رجحانات اور جانب دارانہ جذبات اور خیالات کو کچل دیا تھا۔
ان کے بچپنے کی ایک کہانی ہم سب بچوں کو بہت بھاتی تھی۔ ہم بہت سے بچے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پرتھوی بل کے کھلے صحن میں بیٹھ جاتے اور اپنے بزرگ کی ایک ہی کہانی، ان کی زندگی کا سب سے ضروری واقعہ باربار دہراتے۔ یہ بات بہت ضروری تھی کہ بالمکند کہانی کہے تو اسی انداز میں آنکھیں مٹکا کر اور چٹکی بجا کر اور اگر شانتی وہ کہانی دہرائے، تو ویسے ہی آنکھیں مٹکا کر اور چٹکی بجا کر۔ میرے والد کی کہانی ہم سب بچوں کو اسکول کے پہاڑوں کی طرح ازبر یاد، اور باسی روٹی کی طرح مرغوب تھی۔ اگر میں اس کہانی کا ایک لفظ بھی بدل دیتا تو باقی بچوں کے نزدیک کوئی بہت بڑا جرم کرتا۔ اس وقت میرے چچیرے بھائی، پھپھیرے بھائی، بہنیں فورا احتجاج کے لیے اٹھ کھڑی ہوتیں۔ وہ کہانی چوہوں کے متعلق تھی اور ایک طرح سے ہمارا خاندان میں گیت بن چکی تھی۔
کہانی یوں تھی۔
جب بابا (والد صاحب) اور چچا دیوا، چھوٹے ہوتے تھے تو ان کے دل میں چوہے پکڑنے کا خیال پیدا ہوا۔ اس بڑے سے دیو صورت پرتھوی بل کی جگہ ان دنوں ایک چھوٹا سا ٹوٹا پھوٹا مکان ہوتا تھا، جس میں چوہوں کے بڑے بڑے بل تھے۔ چوہے ہر روز پنیر کی ٹکیہ یا بابا کی مرغوب باسی روٹیاں اٹھا کر لے جاتے، چچا دیو ا نے ایک پنجرہ لگایا، سب چوہے پھنس گئے، ایک چوہا بھاگ کر سرنگ میں گھس گیا۔ اب آپ کو یہ جاننا چاہیے۔ (بچے اس بات کو نہ دہرائے جانے کو کبھی برداشت نہیں کرتے تھے) سرنگ ایک بڑا لمبا چوڑا بل ہوتا ہے، جس میں سے چوہے گزر کر ذخیرے، اور ذخیرے سے واپس اپنے مکان میں آ جاتے ہیں۔ بابا نے ایک پنجرے کو سرنگ کے منھ پر رکھ کر اسے شہتوت اور کروندے، توریے کے گودے اور بئے کے گھونسلے سے ڈھک دیا۔ اگلی صبح چچا دیوا کی ہمت نہ پڑی کہ وہ پنجرے تک چلے جائیں، اس لیے بابا اکیلے ہی گئے۔ اکیلے۔۔۔
(دہراتے ہوئے) ’’بابا اس ایک چھو۔۔۔ ٹے سے بچے تھے۔‘‘
’’انھوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پنجرے پر سے پتے ہٹائے تو کیا دیکھتے ہیں وہ وہاں ایک چوہا تھا۔ شتری رنگ کا، پورے قد کا‘‘
’’مٹکتا ہوا اور لٹکتا ہوا پٹختا ہوا، اور بھٹکتا ہوا۔‘‘
’’بابا اتنے گھبرائے، اتنے گھبرائے کہ جوتوں سمیت دوڑتے ہوئے چوکے میں چلے گئے‘‘ (ہمارے لیے کہانی کا یہ حصہ سب سے زیادہ سنسنی پیدا کرنے والا تھا’’جوتوں سمیت دوڑتے ہوئے چوکے میں چلے گئے۔‘‘
وہ بھاگ کر آئے اور چچا دیوا کو آواز دی دیوا ہو دیوا، دیوا ہو اور آواز دیتے ہوئے وہ دونوں ہاتھ اپنے منھ کے دونوں طرف رکھ لیتے، تاکہ آواز ادھر ادھر بکھرنے نہ پائے اور آواز سیدھی چچا دیوا تک پہنچے۔ پھر وہ اتنی زور سے چلاتے کہ آواز ایک چیخ میں بدل جاتی، پھر چیخ کھانسی کی صورت اختیار کر لیتی۔ کھونہہ، کھونہہ ’’کھونہہ کھونہہ کھونہہ! پھر بابا اور چچا دیوا مل کر سرنگ تک چلے گئے جوتے پہنے ہوئے۔ ان کے ہاتھ میں شہتوت کے دو بڑے بڑے موگرے۔ بابا نے چوہے کو مار دیا، بالکل مار دیا، اور جہانگیرآباد کے چنڈالوں سے چوہے کی کھال کھنچواکر اسے چھت پر رکھ دیا۔ جب کھال سوکھ گئی تو پھر انھوں نے اسے پھگو چنڈال کے ہاں بیچ دیا۔ پھگو نے اسے کسی اور کے ہاں بیچا۔ اس نے کسی اور کے۔۔۔ اور ایک آدمی نے اس کی فر بنا دی۔ آج کل بڑی بھابی کے سوئٹر کو وہی فر لگی ہوئی ہے۔
’’اب معاملہ برداشت کی حد سے بڑھ جاتا۔ سب بچے جھوٹ جھوٹ، بکواس، بالکل بکواس کا شور مچا دیتے۔ یہ ممکن، یہ ممکن نہیں کہ مونی جرنیل بھابی کے خوبصورت سوئٹر کو ایک ذلیل چوہے کی فر لگی ہے۔‘‘
آپ نے دیکھا اس واقعہ میں کوئی اصلاح کا پہلو نہیں ہے۔ اپنے والد کی زندگی کا یہی ایک واقعہ تھا جس سے ان کی کمزوری کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ وہ خود کتنے ڈرپوک تھے، حالاں کہ ہمیں ہمیشہ بہادر بننے کی تلقین کرتے تھے۔ بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لیے اس قسم کے واقعات، نام و نہاد ادب، تمیز اور دوسری نصیحت سے پٹی ہوئی کہانیوں سے زیادہ موثر ہوتے تھے، ان سے ہمیں حقیقت کا پتہ چلتا تھا اور ہماری سمجھ میں آتا تھا کہ ہمارے بزرگ بھی کبھی بچے تھے۔ ورنہ دوسری طرز کی کہانیوں میں وہ بچے کی جگہ ہمیں بوڑھے ہی نظر آتے تھے، گویا وہ ناف تک پہنچتی ہوئی داڑھی بچپن ہی سے ان کی ٹھوڑی پر موجود تھی۔
شرارت، لاعلمی، ایک قسم کی زندگی ہے، جس سے بچے پھلتے پھولتے ہیں۔ قدرت ان چیزوں کو بچوں کی جبلت میں دے کر انھیں بڑھاتی ہے۔ ہم نے اپنے ارتقا میں دیکھا ہے کہ عقل اور علم و ادب کے پیدا ہونے کے بعد جسمانی اور روحانی ترقی رک جاتی ہے۔ بچوں کو عقل اور علم کی ضرورت ہے۔ مگر اسے آہستہ آہستہ گویا مکاشفے کے طور پر آنا چاہیے، نہ کہ اسے جھوٹ، سچ، طور بے طور ان پر ٹھونسا جائے۔ ان کی زندگی میں سلائی کی ہتھی کو گھمانا، بلا اجازت ندی میں نہانا، عشق پیچاں کو جڑ سے کاٹ دینا اور اس قسم کے سینکڑوں حادثات پیش آتے ہیں، جن سے ان کو تنبیہ کی جاتی ہے۔ ان کی جبلت کو دبایا جاتا ہے۔ لیکن کیا وہ دب جاتی ہے؟ اور اگر دب جاتی ہے تو کیا اسے دبا کر خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟
سردیوں کی ایک صبح کو بالمکند نے ایک گھوڑے کو تھان پر سے کھول دیا۔ بابا اسے پکڑنے کے لیے کھیتوں کے اونچ نیچ میں دوڑتے تھے۔ ان کی ڈاڑھی اڑتی تھی۔ ان کی سرخ نوکدار ناک سے پانی بہہ رہا ہے۔ کیا اچھا نظارہ تھا، اور اس سے ایک دن پہلے ہم سب آٹے کی چڑیاں بنانے کے جرم میں پٹ چکے تھے۔
آخر ہمارے اخلاق کو بہتر بنانے اور ہماری عادتوں کو سنوار نے کے لیے ہمارے بزرگوں نے ہمیں ایک استاد رکھ دیا، جو سوائے ہمارے، باقی سب کی عزت کرتا تھا۔ ہمارے استاد نے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر ایک انوکھا طریقہ ایجاد کر لیا۔ ہم میں سب سے زیادہ متابعت کرنے والے لڑکے کو ’با ادب ،با تمیز‘ کا سرخ نشان دے دیا جاتا تھا۔ اس جدت سے ہم بہت متاثر ہوئے لیکن درحقیقت اس امتیازی نشان نے ہماری ذہنیت کو اس طرح غلام بنا دیا جیسے سرکار ہمارے کسی قومی بھائی کو دیوان بہادر یا خان بہادر بنا کر اس کے ہاتھ پاؤں کو، حرکت اور آزادی کی زندگی کے عمل سے روک دیتی ہے۔
اس قسم کے اعزاز پانے والے لڑکے کو ہم بڑے رشک و حسد کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اکثر با ادب باتمیز کے الفاظ میں سے ’’ادب‘‘ اور تمیز کے دونوں الفاظ حذف کر کے ایک بکری کے بچے کی طرح با۔۔۔ با۔۔۔ ممیانے لگتے۔ اگرچہ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ ہماری اس قسم کی حرکت میں انگور کھٹے ہیں، کا جذبہ کار فرما ہوتا تھا، حقیقت اور آزادی کا تجسس کم تھا۔
بہار کے موسمی اعتدال نے آہستہ آہستہ اپنی میانہ روی چھوڑ دی اور اس کی خوش خلقی میں تلخ مزاجی بڑھنے لگی۔ یہ وہ دن تھے جب شہتوت کی کونپلیں پورے طور پر پھوٹ نکلتی ہیں اور اس میں پھل پیدا ہو کر راہ رو کو للچاتے ہیں، اور چنار کے چوڑے چوڑے پتے اپنی گھنی چھاؤں سے ماں کی گود کا سا سکون دیتے ہیں۔ لمبے لمبے توریوں، اس کے ارد گرد کے پھول پتوں میں زندگی پگمنٹس اور کلوروفل کی صورت میں دوڑ جاتی ہے۔
ایسی ہی ایک شام میرے ساتھ ایک حادثہ ہوا۔ مجھے بھی وہ امتیازی نشان دے دیا گیا۔ اس وقت مجھے اپنے ہم جولیوں کا ممیانا اور مجھ پر ایک طرح کی غداری کا الزام لگانا بہت برا لگا۔ اسی بہار اور گرمی کے درمیانی موسم میں، میں ایک دن پرتھوی بل کی چھت پر جا چڑھا۔ وہاں ایک چھجا تھا، جس کے ایک کونے پر کھڑے ہونے سے سامنے کا نباتاتی ٹیلا اور شور مچاتی ہوئی ندی کی جھاگ پاؤں میں کلیلیں کرتی ہوئی نظر آتی تھی۔ صرف سر پر لٹکتی ہوئی لمبی لمبی توریوں اور بئے کے گھونسلوں کو پیچھے ہٹانا ہوتا تھا۔
چھجے پر سے مجھے وہ خاردار تار صاف دکھائی دیتی تھی، جس کے باہر با ادب باتمیز لڑکے نہیں جا سکتے تھے۔ وہ سرمئی کانٹوں سے بھرپور تار، سبز رنگ کے ستونوں سے لپٹتی ہوئی پرتھوی بل کے بڑے پھاٹک تک پہنچتی تھی اور اس پر ننھی ننھی، کالی، کالی جھانپلیں اپنا وزن درست کرتی ہوئی صاف دکھائی دیتی تھیں۔ وہ سبزسے ستون دور سے نہایت خوشنما وردی پہنے ہوئے سپاہی نظر آتے تھے، اور وہ تار ہماری اخلاقی قرنطین تھی۔ ہمارے بزرگ نہیں جانتے تھے کہ وہ تار ہماری قرنطین نہیں ہو سکتی تھی۔ انسان بغیر تار کے، بغیر کسی حد کے مقید اور محفوظ رہ سکتا ہے۔ ضرورت ہے آزادی کی ۔
میرے دیکھتے دیکھتے میرے تمام ہم جولی آئے اور کپڑے اتار کر پانی میں داخل ہو گئے۔ ننگے دھرنگے! کیسی آزادی تھی، جس میں سوچنے کی بھی فرصت نہ تھی! تھوڑا سا خیال، معمولی سی سوچ بھی ایک تباہ کن تہذیب بن سکتی تھی۔ بالمکند نے لکڑی کے ایک بڑے سے لٹھے کو پانی میں ڈھکیل دیا اور خود اس پر منھ کے بل لیٹ گیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں چپو کا کام کرنے لگے۔ میرا تصور چمک اٹھا، کنارے پر شانتی اور سوماں مٹی اور دھول میں کھیل رہی تھیں۔ انھیں مٹی کے ساتھ کھیلنے سے منع کیا جاتا تھا، لیکن وہ مٹی کے ساتھ اپنے رشتے کو سمجھتی تھیں۔ اس رشتے کو جو ماں باپ ، بھائی بہن کے رشتے سے زیادہ گہرا تھا کہیں زیادہ گہرا اور ابدی۔
اسی دن میں نے بابا کو سب کا بلا اجازت ندی میں نہانے اور دھول سے کھیلنے کا واقعہ کہہ سنایا، لڑکیاں اور لڑکے پھر پٹ گئے۔
انسان کی فطرت کتنی آزادی کی طالب ہے۔ ملکی آزادی، جسمانی اور شخصی آزادی، روحانی آزادی۔۔۔ اس کا اندازہ کوئی بااخلاق غلام نہیں لگا سکتا۔ انسان تو چاہتا ہے کہ اسے روٹی کپڑے کی لعنت سے بھی آزاد کر دیا جائے۔
پرتھوی بل نے مجھے ذہین اور بااخلاق بنادیا۔ میرے بزرگ بہت ہی خوش تھے کہ میں دوسرے بچوں کی طرح گستاخ نہیں تھا۔ لیکن مجھے معدے کی شکایت رہتی تھی۔ جو بچے جانوروں کی طرح چرتے رہتے، تندرست تھے۔ لیکن میں جو کھانے میں بہت احتیاط سے کام لیتا، ہمیشہ بیمار رہتا۔ ڈاکٹر کہتا تھا، ’’نندی کو اینمیا ہے۔‘‘
دیوان خانے میں صندل کی صندوقچی کے پاس ایک قلمدان رکھا تھا، اس پر چند پیسے پڑے تھے۔ میں ایک لیمپ جلا کر اس کی مدھم مدھم روشنی میں کتاب پڑھ رہا تھا۔ لیکن میرا دل میری سامعہ، شہتوت اور چنار کے پتوں سے گزرتی ہوئی ہوا کی سیٹیوں کی طرف متوجہ تھی۔ میرا منھ بڑے بڑے اور لمبے شہتوتوں کا ذائقہ لے رہا تھا اور میرے ہاتھ پاؤں ایک خواب آلود پانی کے اندر چپوؤں کی طرح حرکت کر رہے تھے۔ میں نے کھڑکی میں کھڑے ہو کر ایک توری اور بئے کے گھونسلے کو پرے ہٹا دیا۔ مجھے محسوس ہوا، انسان کا ارض و سما کی وسعتوں سے بھی ایک رشتہ ہے۔
پرتھوی بل کے باہر بوا دتا اچارج بدستور کروندے اور سنگاڑے بیچ رہا تھا۔ میں نے میز کے قریب کھڑے ہو کر نفرت سے اپنے جسم پر لگے ہوئے سرخ نشان کو دیکھا۔ پھر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے میں نے قلمدان کی طرف ہاتھ بڑھایا اور وہاں سے پیسے اٹھا لیے اور سرخ نشان کو پھاڑ کر کھڑکی کے باہر پھینک دیا۔
اب میں قرنطین سے باہر تھا۔ وہ سبز خاموش سپاہی، مجھے دیکھ کر مسکراتے تھے۔ میری جراء ت کی داد دیتے تھے۔ میرا دل بے پایاں آسمان کی طرح کھل رہا تھا۔شام کو مجھے بخار ہو گیا۔ میرا دل اور میرا جسم قدرت کی سخاوت کے قابل نہ رہا تھا۔ پھر میرا ضمیر مجھے برابر سرزنش کرتا رہا۔ میری نبض تیز ہو گئی۔ شام کو بابا آئے۔ ان کا چہرہ مجھے ٹیڑھا معلوم ہو رہا تھا۔ پھر رنگارنگ نقطے بسیط ہونا شروع ہوئے۔ لیکن ان نقطوں اور جلے ہوئے حلقوں کے درمیان مجھے بابا کی دودھیاسقیہ ڈاڑھی بدستور ٹھنڈک پہنچاتی رہی۔ میں نے بابا کو بتایا کہ اماں نے مجھے چوری کے الزام میں بہت پیٹا ہے۔ حالاں کہ میں نے چوری نہیں کی۔ معا مجھے یاد آیا، بابا نے بھی اپنی زندگی میں ایک چوری کی تھی۔ لیکن جب انھوں نے چوری کا اقبال دادی اماں کے سامنے کر لیا تھا، اور اس دن اماں جان جو پیسوں کے متعلق پوچھتی رہیں تو میں نے صاف لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ اس وقت مجھے بار بار یہی خیال آتا! کاش میں اپنے بابا کی طرح کشادہ دل انسان ہوتا! اور اپنے جرم کا اعتراف کر لیتا۔ اچانک ایک بہت برے درد نے میرے جسم اور ذہن کا احاطہ کر لیا۔ کچھ دیر بعد مجھے یوں معلوم ہوا جیسے کوئی پر شفقت ہاتھ میرے سر کی تمام گرمی کو کھینچ رہا ہے۔ میں نے ہولے ہولے آنکھیں کھولیں اور بابا کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’بابا، آپ کہانی سنائیں‘‘
’’کون سی کہانی میرے بیٹے؟‘‘
’’جب آپ چھوٹے تھے آپ نے ایک بار چوری کی۔ آپ نے ماں کے سامنے اس بات کو مان لیا جب آپ بہت چھوٹے سے تھے نا۔؟‘‘
’’بابا میری ماں کو آواز دیتے ہوئے بولے۔ ‘‘سیتا ادھر لانا۔ ایک پانی کا گلاس۔۔۔ تم نے نندی کو کیوں پیٹا ہے؟ میں جانتا ہوں وہ کیوں بیمار ہے۔ لاؤ پانی، لاؤ گی بھی؟
پانی کا گلاس لے کر ایک گھونٹ نیچے اتارتے ہوئے بابا بولے۔ ’’ہاں نندی! میں نے یہ کہانی تمھیں سنائی تھی۔ میں نے چوری کی تھی اور ماں کے سامنے اس چوری کو مان لیا تھا۔‘‘ اس کے بعد بابا نے ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی۔ اس وقت جب کہ وہ پر شفقت ہاتھ میری تمام مصیبتوں کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا، ان کی آنکھیں نمناک ہو گئیں اور انھوں نے اپنا منھ میرے کان کے قریب کرتے ہوئے کہا ’’سچ یہ ہے میں نے چوری کی تھی۔ جب میں چھوٹا تھا، اور سنو نندی، میرے بیٹے، اٹھ کر کھیلو میں نے آج تک تمھاری دادی کے سامنے اس چوری کا اعتراف نہیں کیا۔‘‘
راجندر سنگھ بیدی