یہ مضمون ایک ایسی عورت کی کہانی بیان کرتا ہے جو تنہائی کے راستے پر گامزن ہے۔ اس کے قدموں کی خاموشی اس کے دل کی گہرائیوں میں چھپی مایوسی کی گونج بن جاتی ہے۔ وہ ایک اجنبی راہ پر اپنے خوابوں کی شکست اور امیدوں کے بکھرنے کی حقیقت سے دوچار ہے۔ مضمون میں شاعری کا تڑکہ اس کی داستان کو اور زیادہ جذباتی اور اثر انگیز بناتا ہے۔
مایوسی انسان کی زندگی میں اس وقت قدم رکھتی ہے جب خواب، حقیقت کے پتھریلے راستوں پر دم توڑ دیتے ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی گئی عورت ایک ایسی علامت ہے جو اپنی زندگی کے بھاری بوجھ کے ساتھ چل رہی ہے۔ سرخ لباس، شاید اس کے دل کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی خواہشات کی علامت ہے، لیکن اس کی قدموں کی بے مقصدیت اس کے دل کے سنسان ہونے کی گواہ ہے۔
"پھول بھی روتے ہیں شاخوں پہ بہاروں کے لئے
کتنی حسرت سے خزاؤں کا سماں دیکھتے ہیں”
یہ راستہ، جو دھند میں چھپا ہوا ہے، زندگی کی غیر یقینی صورتحال کا آئینہ ہے۔ وہ اپنے ماضی کے زخموں کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے، لیکن ہر قدم اسے ماضی کی گونج میں مزید دھکیل دیتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی جوتی شاید ان بوجھل خوابوں کی نمائندگی کرتی ہے جو اس نے کہیں پیچھے چھوڑ دیے ہیں۔
مایوسی صرف دل کا درد نہیں بلکہ یہ روح کی خاموشی ہے۔ وہ شخص جو کبھی امیدوں کے قلعے میں رہتا تھا، آج ویرانی کے اس صحرا میں بھٹک رہا ہے۔ اس عورت کا سرخ لباس اس کے اندر کے جذبات کو بیان کرتا ہے، لیکن اس کا چہرہ مایوسی کی داستان کہتا ہے۔
"تقدیر کے لکھے ہوئے پر کوئی قابو نہیں
ہم نے بھی بہت چاہا مگر کچھ نہ کر سکے”
وہ راستہ، جو دائیں بائیں گھومتا ہے، زندگی کے ان راستوں کی علامت ہے جو کبھی صاف نظر نہیں آتے۔ وہ چل تو رہی ہے، مگر اس کے قدم کسی منزل کے نہیں، بلکہ ایک نہ ختم ہونے والے سفر کے ہیں۔
مایوسی کا سفر ہر انسان کی زندگی کا حصہ بن سکتا ہے، لیکن یہ خاتمہ نہیں۔ شاید، اس دھندلے راستے کے آخر میں روشنی کی کوئی کرن ہو، جو اسے اس کے خوابوں کی حقیقت کی طرف لے جائے۔
"اندھیروں میں بھی کوئی چراغ جلتا ہے
مایوسی کے سفر میں بھی راستہ ملتا ہے”
یہ تصویر، یہ کہانی، یہ احساس ہر اس شخص کی نمائندگی کرتا ہے جو مایوسی کے راستے پر چل رہا ہے۔ مگر شاید، ہر اندھیری رات کے بعد ایک نئی صبح اس کی منتظر ہو۔
یہ مضمون ہمیں سکھاتا ہے کہ مایوسی ایک عارضی حالت ہے، اور زندگی کا سفر ہمیشہ ہمیں ایک نئی سمت دے سکتا ہے، اگر ہم ہمت سے کام لیں۔
شاکرہ نندنی