آپ کا سلاماختصاریئےاردو تحاریر

مایوسی کی داستان

شاکرہ نندنی کی ایک اردو تحریر

shakira nandni

یہ مضمون ایک ایسی عورت کی کہانی بیان کرتا ہے جو تنہائی کے راستے پر گامزن ہے۔ اس کے قدموں کی خاموشی اس کے دل کی گہرائیوں میں چھپی مایوسی کی گونج بن جاتی ہے۔ وہ ایک اجنبی راہ پر اپنے خوابوں کی شکست اور امیدوں کے بکھرنے کی حقیقت سے دوچار ہے۔ مضمون میں شاعری کا تڑکہ اس کی داستان کو اور زیادہ جذباتی اور اثر انگیز بناتا ہے۔

مایوسی انسان کی زندگی میں اس وقت قدم رکھتی ہے جب خواب، حقیقت کے پتھریلے راستوں پر دم توڑ دیتے ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی گئی عورت ایک ایسی علامت ہے جو اپنی زندگی کے بھاری بوجھ کے ساتھ چل رہی ہے۔ سرخ لباس، شاید اس کے دل کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی خواہشات کی علامت ہے، لیکن اس کی قدموں کی بے مقصدیت اس کے دل کے سنسان ہونے کی گواہ ہے۔

"پھول بھی روتے ہیں شاخوں پہ بہاروں کے لئے
کتنی حسرت سے خزاؤں کا سماں دیکھتے ہیں”

یہ راستہ، جو دھند میں چھپا ہوا ہے، زندگی کی غیر یقینی صورتحال کا آئینہ ہے۔ وہ اپنے ماضی کے زخموں کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے، لیکن ہر قدم اسے ماضی کی گونج میں مزید دھکیل دیتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی جوتی شاید ان بوجھل خوابوں کی نمائندگی کرتی ہے جو اس نے کہیں پیچھے چھوڑ دیے ہیں۔

مایوسی صرف دل کا درد نہیں بلکہ یہ روح کی خاموشی ہے۔ وہ شخص جو کبھی امیدوں کے قلعے میں رہتا تھا، آج ویرانی کے اس صحرا میں بھٹک رہا ہے۔ اس عورت کا سرخ لباس اس کے اندر کے جذبات کو بیان کرتا ہے، لیکن اس کا چہرہ مایوسی کی داستان کہتا ہے۔

"تقدیر کے لکھے ہوئے پر کوئی قابو نہیں
ہم نے بھی بہت چاہا مگر کچھ نہ کر سکے”

وہ راستہ، جو دائیں بائیں گھومتا ہے، زندگی کے ان راستوں کی علامت ہے جو کبھی صاف نظر نہیں آتے۔ وہ چل تو رہی ہے، مگر اس کے قدم کسی منزل کے نہیں، بلکہ ایک نہ ختم ہونے والے سفر کے ہیں۔

مایوسی کا سفر ہر انسان کی زندگی کا حصہ بن سکتا ہے، لیکن یہ خاتمہ نہیں۔ شاید، اس دھندلے راستے کے آخر میں روشنی کی کوئی کرن ہو، جو اسے اس کے خوابوں کی حقیقت کی طرف لے جائے۔

"اندھیروں میں بھی کوئی چراغ جلتا ہے
مایوسی کے سفر میں بھی راستہ ملتا ہے”

یہ تصویر، یہ کہانی، یہ احساس ہر اس شخص کی نمائندگی کرتا ہے جو مایوسی کے راستے پر چل رہا ہے۔ مگر شاید، ہر اندھیری رات کے بعد ایک نئی صبح اس کی منتظر ہو۔

یہ مضمون ہمیں سکھاتا ہے کہ مایوسی ایک عارضی حالت ہے، اور زندگی کا سفر ہمیشہ ہمیں ایک نئی سمت دے سکتا ہے، اگر ہم ہمت سے کام لیں۔

شاکرہ نندنی

شاکرہ نندنی

میں شاکرہ نندنی ہوں، ایک ماڈل اور ڈانسر، جو اس وقت پورٹو، پرتگال میں مقیم ہوں۔ میری پیدائش لاہور، پاکستان میں ہوئی، اور میرے خاندانی پس منظر کی متنوع روایات میرے ثقافتی ورثے میں جھلکتی ہیں۔ میرے والد ایک مسلمان تھے، جن کا تعلق اصل میں بنگلور، بھارت سے تھا، اور وہ 1947 میں تقسیم کے دوران پاکستان منتقل ہوئے۔ میری مرحوم والدہ، جو بعد میں ہندو مت میں تبدیل ہوئیں، کا تعلق ڈھاکہ سے تھا، جو اس وقت سابقہ مشرقی پاکستان تھا۔ میرا بچپن روس میں گزرا، جہاں مجھے ایک ثقافتی طور پر بھرپور ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ 12 سال کی عمر میں، میری زندگی میں ایک بڑا موڑ آیا جب میرے والدین میں علیحدگی ہوگئی، اور میری والدہ اور میں فلپائن منتقل ہوگئے۔ وہاں میں نے اپنی اعلیٰ ثانوی تعلیم مکمل کی، جو میرے مستقبل کے کیریئر کی بنیاد بنی۔ 2001 میں، میں نے سنگاپور میں ماڈلنگ کے شعبے میں اپنے پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کیا۔ میرا شوق اور محنت جلد ہی مجھے مختلف ڈانس پروگراموں میں کارکردگی دکھانے کے مواقع فراہم کرنے لگی، جس کے بعد میں نے چیک ریپبلک میں اپنے کیریئر کو مزید آگے بڑھایا، جہاں میں نے سویٹ موڈلیک کے ساتھ اداکارہ، ڈانسر، اور ماڈل کے طور پر کام کیا۔ مجھے فخر ہے کہ میں پہلی پاکستانی ہوں جس نے سویڈن کی ایک نامور یونیورسٹی سے ماڈلنگ اور ڈانسنگ میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ 2013 میں، میں نے ہندو مت کو اپنا لیا، جو میرے نقطہ نظر اور فنکارانہ اظہار میں گہرا اثر رکھتا ہے۔ آج، میں پورٹو میں بوم ماڈلنگ ایجنسی میں ڈپٹی مینیجر کے طور پر کام کر رہی ہوں۔ مجھے اپنے فن اور علم کو نوجوان ماڈلز اور ڈانسرز کے ساتھ شیئر کرنے اور انہیں متاثر کرنے کا موقع حاصل ہے۔ میری کہانی ایک منفرد ثقافتی رنگا رنگی اور عزم کی عکاس ہے، اور میں امید کرتی ہوں کہ یہ ماڈلنگ اور ڈانس کی دنیا میں اپنا خاص مقام بنائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button