آپ کا سلاماختصاریئےاردو تحاریر

ماں کی خاموشی اور بیٹی کی عزت

شاکرہ نندنی کی ایک اردو تحریر

یہ مضمون ماں کی اس خاموشی پر روشنی ڈالتا ہے جو بیٹی کی اسکول میں عزت پامال ہونے کے بعد اختیار کی جاتی ہے۔ مضمون میں معاشرتی دباؤ، خاندانی عزت، اور تعلیمی اداروں کی بے حسی کو ماں کی خاموشی کی اہم وجوہات قرار دیا گیا ہے۔ یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ایسی خاموشی بیٹی کے اعتماد اور تحفظ کے احساس کو مجروح کرتی ہے۔ حل کے طور پر، معاشرتی رویوں میں تبدیلی، تعلیمی اداروں کی ذمہ داری، اور ماؤں کا ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا ضروری ہے تاکہ بیٹیوں کو محفوظ اور باعزت ماحول فراہم کیا جا سکے۔

عورت کی حیثیت ایک خاندان کی بنیاد، معاشرتی اقدار کی محافظ، اور نسلوں کی تربیت میں مرکزی کردار کی حامل ہوتی ہے۔ مگر جب یہ عورت، ماں کے روپ میں، اپنی بیٹی کی عزت کی پامالی پر خاموشی اختیار کرتی ہے تو یہ نہ صرف ایک گہرے زخم کی عکاسی کرتی ہے بلکہ ایک ایسے معاشرتی المیے کو بھی نمایاں کرتی ہے جو کئی گھروں میں چھپا ہوا ہوتا ہے۔

اس موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس خاموشی کی وجوہات کو سمجھیں۔ ماں، جو اپنی اولاد کے لیے قربانیاں دینے کا دوسرا نام ہے، کیوں اپنی بیٹی کی زندگی کے ایسے دلخراش لمحے پر لب سی لیتی ہے؟ اس سوال کا جواب معاشرتی دباؤ، خاندانی عزت، اور معاشرتی رویوں کی پیچیدگیوں میں چھپا ہوا ہے۔

ہماری ثقافت میں، عزت کو عورت کی ذات سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ یہ سوچ کہ بیٹی پر آنے والی کوئی آزمائش خاندان کی عزت پر دھبہ ڈال سکتی ہے، اکثر ماؤں کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ بیٹی کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بات کرنا، گویا اس دکھ کو مزید بڑھا دیتا ہے کیونکہ یہ مسئلہ عام طور پر متاثرہ فرد کو ہی مجرم بنا کر پیش کرتا ہے۔ ماں کے دل میں یہ خوف ہوتا ہے کہ اس کے بولنے سے نہ صرف بیٹی کو مزید شرمندگی اٹھانی پڑے گی بلکہ معاشرہ بھی ان کے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے۔

ماں کا دل اپنی اولاد کی تکلیف کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ جب بیٹی پر یہ ظلم ہوتا ہے، ماں کا دل خون کے آنسو روتا ہے، لیکن وہ اپنے جذبات کو دبانے پر مجبور ہوتی ہے۔ کبھی یہ خاموشی بیٹی کے بہتر مستقبل کے لیے ہوتی ہے اور کبھی یہ ماں کی اپنی تربیت اور محدود وسائل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ماں کے دل میں یہ سوچ پنپتی ہے کہ شاید خاموشی سے حالات بہتر ہو جائیں گے، اور یہ ظلم کا بوجھ وقت کے ساتھ کم ہو جائے گا۔

اس صورت حال میں اسکول جیسے تعلیمی اداروں کا کردار بھی زیر بحث آتا ہے۔ وہ ادارے جو علم، تربیت، اور تحفظ کے مراکز ہونے چاہئیں، وہاں ایسے واقعات کا پیش آنا نہ صرف نظام کی خامیوں کو عیاں کرتا ہے بلکہ والدین کے اعتماد کو بھی شدید دھچکا پہنچاتا ہے۔ جب ماں دیکھتی ہے کہ تعلیمی ادارے اس جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں یا مجرموں کو سزا دینے میں ناکام رہتے ہیں، تو اس کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے اور وہ خاموشی کو ہی اپنا سہارا سمجھتی ہے۔

ماں کی خاموشی بیٹی کے دل پر گہرے زخم چھوڑتی ہے۔ بیٹی یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے اس کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ زخم نہ صرف جذباتی بلکہ نفسیاتی طور پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ بیٹی کا احساسِ تحفظ ختم ہو جاتا ہے، اور وہ دنیا کو ایک محفوظ جگہ کے طور پر دیکھنے سے قاصر رہتی ہے۔

ماں کی خاموشی کو توڑنا معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں ایسی سوچ کو ختم کرنا ہوگا جو عزت کو عورت کی ذات سے جوڑتی ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بیٹی پر ظلم کرنے والا مجرم ہے، نہ کہ وہ جو ظلم کا شکار ہوئی ہے۔

تعلیمی اداروں کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے اور ایسے ماحول کو یقینی بنانا چاہیے جہاں بچوں کی حفاظت اولین ترجیح ہو۔ اس کے علاوہ، ماؤں کو یہ یقین دلایا جانا چاہیے کہ ان کی آواز بلند کرنے سے نہ صرف ان کی بیٹی بلکہ دیگر بچیوں کے لیے بھی تحفظ کے دروازے کھل سکتے ہیں۔

بیٹی کی اسکول میں عزت لٹنے پر ماں کی خاموشی ایک ایسے المیے کی عکاسی کرتی ہے جس کا سامنا معاشرے کے کئی طبقات کو ہے۔ مگر اس خاموشی کو ختم کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ماؤں کو اپنی بیٹیوں کے لیے مضبوط دیوار بننا ہوگا اور ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ جب ماں اپنی خاموشی توڑے گی، تبھی معاشرہ ایک محفوظ اور باعزت مقام بن سکے گا۔

شاکرہ نندنی

شاکرہ نندنی

میں شاکرہ نندنی ہوں، ایک ماڈل اور ڈانسر، جو اس وقت پورٹو، پرتگال میں مقیم ہوں۔ میری پیدائش لاہور، پاکستان میں ہوئی، اور میرے خاندانی پس منظر کی متنوع روایات میرے ثقافتی ورثے میں جھلکتی ہیں۔ میرے والد ایک مسلمان تھے، جن کا تعلق اصل میں بنگلور، بھارت سے تھا، اور وہ 1947 میں تقسیم کے دوران پاکستان منتقل ہوئے۔ میری مرحوم والدہ، جو بعد میں ہندو مت میں تبدیل ہوئیں، کا تعلق ڈھاکہ سے تھا، جو اس وقت سابقہ مشرقی پاکستان تھا۔ میرا بچپن روس میں گزرا، جہاں مجھے ایک ثقافتی طور پر بھرپور ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ 12 سال کی عمر میں، میری زندگی میں ایک بڑا موڑ آیا جب میرے والدین میں علیحدگی ہوگئی، اور میری والدہ اور میں فلپائن منتقل ہوگئے۔ وہاں میں نے اپنی اعلیٰ ثانوی تعلیم مکمل کی، جو میرے مستقبل کے کیریئر کی بنیاد بنی۔ 2001 میں، میں نے سنگاپور میں ماڈلنگ کے شعبے میں اپنے پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کیا۔ میرا شوق اور محنت جلد ہی مجھے مختلف ڈانس پروگراموں میں کارکردگی دکھانے کے مواقع فراہم کرنے لگی، جس کے بعد میں نے چیک ریپبلک میں اپنے کیریئر کو مزید آگے بڑھایا، جہاں میں نے سویٹ موڈلیک کے ساتھ اداکارہ، ڈانسر، اور ماڈل کے طور پر کام کیا۔ مجھے فخر ہے کہ میں پہلی پاکستانی ہوں جس نے سویڈن کی ایک نامور یونیورسٹی سے ماڈلنگ اور ڈانسنگ میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ 2013 میں، میں نے ہندو مت کو اپنا لیا، جو میرے نقطہ نظر اور فنکارانہ اظہار میں گہرا اثر رکھتا ہے۔ آج، میں پورٹو میں بوم ماڈلنگ ایجنسی میں ڈپٹی مینیجر کے طور پر کام کر رہی ہوں۔ مجھے اپنے فن اور علم کو نوجوان ماڈلز اور ڈانسرز کے ساتھ شیئر کرنے اور انہیں متاثر کرنے کا موقع حاصل ہے۔ میری کہانی ایک منفرد ثقافتی رنگا رنگی اور عزم کی عکاس ہے، اور میں امید کرتی ہوں کہ یہ ماڈلنگ اور ڈانس کی دنیا میں اپنا خاص مقام بنائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button