شہرِ دل
شہرِ پر سوز و طربناک تجھے تیری قسم
صرف اک بار مجھے اِذنِ حکایت دیدے
میری درماندہ محبت کی کہانی سن لے
نیم خوابیدہ تمنّاؤں کو جرا ت دیدے
آخری بار تجھے غور سے میں دیکھ تو لوں
کوچ کر جاؤں گا پھر داغِ جدائی دے کر
میں چلا جاؤں گا حالات کے پہلو پہلو
اپنے ماضی کے سسکتے ہوئے لمحے لے کر
ہاں اگر کچھ بھی نہیں جشنِ مسرت ہی سہی
ترے کوچے سے کبھی میرا گذر ہو کہ نہ ہو
میں بھی اب کچھ نہ کہوں تو بھی بھلا دے سب کچھ
کس کو معلوم کہ اب شام و سحر ہو کہ نہ ہو
میرا سامانِ حفاظت تری یادیں ہوں گی
چند ہنستی ہوئی روتی ہوئی پیاری یادیں
بات کرتی ہوئی چپ چاپ سی اٹھلائی ہوئی
ہچکچاتی ہوئی روٹھی ہوئی ساری یادیں
یعنی ایّامِ گذشتہ کی شکستہ یادیں
ذہن و احساس کی گلیوں میں بہت ڈھونڈوں گا
جو ترے قرب کی لذّت سے شناسا تھے کبھی
وہ شب و روز باندازِ جنوں پوجوں گا
تلخ ایّام جو گذرے ہیں ترے زیرِ نگیں
انکی ٹیسوں کو یہاں چھوڑ کے کیسے جاؤں
تجربے اور تری یادیں ہیں جس میں محفوظ
ایسے کشکول کو میں توڑ کے کیسے جاؤں
یا پھر ایسا ہو کہ ہمراہ مرے تو بھی چلے
ان خلاؤں سے پرے دور نکل جائیں گے
تجربے درد کے اور یادوں کے جگنو ہوں گے
ساری دنیا سے جدا رختِ سفر باندھیں گے
سوچتا ہوں کہ تری بزم میں آیا کیوں تھا
کس لیے دردِ مسلسل کا خریدار بنا
کرب آمیز ملاقات کی حاجت کیا تھی
اور کیوں جرمِ محبت کا گنہگار بنا
ٹوٹتے دل کی بکھرتی ہوئی کرچیں لے کر
میں بہت دور بہت دور چلا جاؤں گا
جب کبھی مجھ سے ملاقات کی خواہش جاگے
ایک آواز ہی کافی ہے چلا آؤں گا
عزیز نبیلؔ