آپ کا سلاماردو نظمسلمیٰ سیّدشعر و شاعری

تھر

ایک اردو نظم از سلمیٰ سیّد

تھر

بھوک سے بلکتے ہیں آب کو ترستے ہیں

"کیا یہ ظلم تھوڑا ہے”

مائیں اپنے بچوں کے نرم گرم جسموں کو

سوکھتی زمینوں میں کسطرح دباتیں ہیں

لوگ ایک دوجے کو یوں خموش تکتے ہیں

جس طرح سمجھتے ہیں موت اب یقینی ہے

ہجرتوں کے مارے ہیں اپنے گھر کو چھوڑا ہے

"کیا یہ ظلم تھوڑا ہے "

کربلا سا عالم ہے سوگ پھیل جاتا ہے

اور یزیدی فطرت کے راہنما جو آتے ہیں

لوگ یہ سمجھتے ہیں ان عظیم لوگوں نے

ہاتھ جو بڑھایا ہے بھوک کو مٹایا ہے

تشنگی کو موڑا ہے

"کیا یہ ظلم تھوڑا ہے”

سلمیٰ سیّد

سلمیٰ سیّد

قلمی نام سلمیٰ سید شاعری کا آغاز۔۔ شاعری کا آغاز تو پیدائش کے بعد ہی سے ہوگیا تھا اسوقت کے بزرگوں کی روایت کیمطابق گریہ بھی خاص لے اور ردھم میں تھا۔۔ طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ سے معذرت کے ساتھ غالب اور میر کی بڑی غزلیں برباد کرنے کے بعد تائب ہو کر خود لکھنا شروع کیا۔ناقابل اشاعت ہونے کے باعث مشق ستم آج تلک جاری ہے۔اردو مادری زبان ہے مگر بہت سلیس اردو میں لکھنے کی عادی ہوں۔ میری لکھی نظمیں بس کچھ کچے پکے سے خیال ہیں میرے جنھیں آج آپ کے ساتھ بانٹنے کا ایک قریبی دوست نے مشورہ دیا۔۔ تعلیمی قابلیت بی کام سے بڑھ نہ سکی افسوس ہے مگر خیر۔۔مشرقی گھریلو خاتون ایسی ہی ہوں تو گھر والوں کے لیے تسلی کا باعث ہوتی ہیں۔۔ پسندیدہ شعراء کی طویل فہرست ہے مگر شاعری کی ابتدا سے فرحت عباس شاہ کے متاثرین میں سے ہوں۔۔ شائد یہی وجہ ہے میری نظمیں بھی آزاد ہیں۔۔ خوبصورت شہر کراچی سے میرا تعلق اور محبت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button