تیری یاد کا روشن چاند
دِل کے نگر میں
شام ڈھلے تو
دُنیا کا چہرہ دھندلائے
اور آوازیں دھیرے دھیرے
چپ دریا میں اُترتی جائیں
سوچ کی پاگل بپھری لہریں
دل کے کناروں تک آ جائیں
بولتے بولتے میرے یہ لب
جب تھک کر کچھ سستا جائیں
مجھ کو گھورتی کھوجتی نظریں
منظر سے اوجھل ہو جائیں
لب پہ سجی نقلی مسکان
اور وہ سارے رسمی جملے
اِک اِک کر کے اُترتے جائیں
بے بس آنکھوں کے کاجل کی
بوجھل دھار پھسلتی جائے
ہاتھ سے اُس کے ہاتھوں کی
سب خوشبوئیں بھی اُڑ جائیں
میری زلفوں کے سب بل
کھل کے شانوں پر لہرائیں
تنہائی کہ شب کا زہر
چاروں اور بکھرتا جائے
جھوٹے لوگوں کی سب باتیں
بے معنی ہونے لگ جائیں
تب اے جاناں !
ان لمحوں میں
دِل کے اُفق پر آ جاتا ہے
تیری یاد کا روشن چاند
شازیہ اکبر