عمر کے بعد اس طرح دید بھی ہو گی بات بھی
تو بھی قریب جاں ہے آج بھیگ رہی ہے رات بھی
دل میں ہے اک محل سرا اس میں لگا ہے آئینہ
عکس ہے اس میں غیر کا عکس میں اپنی ذات بھی
خواب میں تیری دید سے اس طرح روشنی ہوئی
نور سے بھر گیا تمام حجلۂ کائنات بھی
ایک خیال کے طفیل ایک وصال کے سبب
روز تو روز عید تھا شب تھی شب برات بھی
سارے جہاں کے سامنے ایسے رہے ہیں سربلند
دل میں تھا ایک رنج بھی ہاتھ میں ایک ہاتھ بھی
ثمینہ راجہ