آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریعمر اشتر

اِک وقت سے سہما ہوا چہرہ

ایک اردو غزل از عمر اشتر

اِک وقت سے سہما ہوا چہرہ ہے کہ میں ہوں؟
خاموشی سے زخمی یہ کلیجہ ہے کہ میں ہوں؟

شیشے کی طرف تنہا کھڑا سوچ رہا ہوں
اشکوں سے یہ بھیگا ہوا ڈھانچہ ہے کہ میں ہوں؟

ڈر کر ترے سینے سے جو آ میں لگا ہوں
عشّاق کی مانند کوئی بچہ ہے کہ میں ہوں؟

یہ دکھ ہے کہ سکھ ہے کوئی کانٹا ہے کہ گل ہے
دریا ہے کہ جلتا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں؟

یہ رات کو روشن کوئی شب تاب ہے یا تُو
یہ دن میں کہیں پھیلا اندھیرا ہے کہ میں ہوں

تا عمر کسی یاد میں بوڑھا ہوا برگد
برگد پہ بٹھایا یہ پرندہ ہے کہ میں ہوں

شیشے سے بنائی گئی دیوار ہے یا تُو؟
پتھر سے تراشہ ہوا کتبہ ہے کہ میں ہوں؟

فطرت میں تقابل ہے کہیں شر ہے کہیں خیر
یہ دونوں سے ملتا ہوا شجرہ ہے کہ میں ہوں؟

 عمر اشتر

عمر اشتر

نام: عمر اشتر تاریخِ پیدائش: 02 ستمبر 2002ء والد کا نام: زوالفقار احمد دادا کا نام: نذیر حسین مذہب: اِسلام تحصیل و ضلع: سیالکوٹ ملک: پاکستان "تعارفی شعر" شدّتِ غم کو زرا کم تو وہ ہونے دیتی میں اگر رونے لگا تھا مجھے رونے دیتی زیرِ نگرانی مجھے رکھا ہوا ہے اُس نے وہ مجھے اور کسی کا نہیں ہونے دیتی ہجر میں ہوتے ہوئے وصلِ جنوں ڈھونڈتا ہوں کتنا پاگل ہوں اداسی میں سکوں ڈھونڈتا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button