اِک وقت سے سہما ہوا چہرہ ہے کہ میں ہوں؟
خاموشی سے زخمی یہ کلیجہ ہے کہ میں ہوں؟
شیشے کی طرف تنہا کھڑا سوچ رہا ہوں
اشکوں سے یہ بھیگا ہوا ڈھانچہ ہے کہ میں ہوں؟
ڈر کر ترے سینے سے جو آ میں لگا ہوں
عشّاق کی مانند کوئی بچہ ہے کہ میں ہوں؟
یہ دکھ ہے کہ سکھ ہے کوئی کانٹا ہے کہ گل ہے
دریا ہے کہ جلتا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں؟
یہ رات کو روشن کوئی شب تاب ہے یا تُو
یہ دن میں کہیں پھیلا اندھیرا ہے کہ میں ہوں
تا عمر کسی یاد میں بوڑھا ہوا برگد
برگد پہ بٹھایا یہ پرندہ ہے کہ میں ہوں
شیشے سے بنائی گئی دیوار ہے یا تُو؟
پتھر سے تراشہ ہوا کتبہ ہے کہ میں ہوں؟
فطرت میں تقابل ہے کہیں شر ہے کہیں خیر
یہ دونوں سے ملتا ہوا شجرہ ہے کہ میں ہوں؟
عمر اشتر