بے یقینی کے بے کل سمندر میں اُتری ہوئی
دو سیہ کشتیاں
موج در موج پھیلے ہوئے پانیوں میں
سلگتی ہوئی
دو عجب بستیاں
سُونی آنکھوں میں دو
ڈولتی پُتلیاں
ڈولتی پُتلیاں
عکس لہروں پہ محروم سی آس کا
خشک چہرے کی اُن سلوٹوں میں مچلتا ہوا
بے کراں انتظار
شہر کے اس حسیں موڑ پر
سانولی سوکھی ٹانگوں پہ رکھا ہوا
اک زمانے کا بار
خشک ہاتھوں میں تھامی ہوئی ایک امید
گاڑی کی آواز
جیسے کہیں
کوئی آ کے رُکا
اور تصور میں مہکی ہوئی
سوندھی روٹی کا چہرہ سا لہرا گیا
ڈھول پر تھاپ دیتے ہوئے کانپتے ہاتھ
اور اس طرف جھومتے لوگ آسودہ تن
رنگ اور روشنی میں نہائے بدن
کوئی کیسے سُنے
ڈھول کی تھاپ میں
لڑکھڑاتی، تڑپتی ہوئی سسکیاں
روشنی میں نہاتی ہوئی
بھوک سے بلبلاتی ہوئی
جان کی
آخری ہچکیاں
گلناز کوثر