جانے میں قتل گہ سے ترا اختیار ہے
پر جانیں جو گئی ہیں سو رہ پر غبار ہے
ہم آپ سے گئے سو الٰہی کہاں گئے
مدت ہوئی کہ اپنا ہمیں انتظار ہے
بس وعدئہ وصال سے کم دے مجھے فریب
آگے ہی مجھ کو تیرا بہت اعتبار ہے
سرتابی اس سے طائر قدسی نہ کر سکے
اس ترک صید بند کا وہ تو شکار ہے
مائل نہیں ہے سرو ہی تنہا تری طرف
گل کو بھی تیرے دیکھنے کا خار خار ہے
پیوند میں زمیں کا ہوا اس گلی میں لیک
یوں بھی کہا نہ ان نے یہ کس کا مزار ہے
کل سرو ناز باغ میں آیا نظر مجھے
میں نے فریب شوق سے جانا کہ یار ہے
اب دیکھ کر قرار کیا کر وصال کا
دل کو بغیر تیرے تنک بھی قرار ہے
مت فکر خانہ سازی میں منعم ہلاک ہو
بنیاد زندگانی کی ناپائدار ہے
کب تک ستم کبھو تو دلاسا بھی دیجیے
بالفرض میر ایسا ہی تقصیروار ہے
میر تقی میر