کتب : کہانی چل رہی ہے اور خوابشار
تعارف، تبصرہ: ثمینہ سید
صاحب کتب : شہزاد نیر
کتب : کہانی چل رہی ہے اور خوابشار
تعارف، تبصرہ: ثمینہ سید
ادب کے لفظی معنی مہمان نوازی، ادب و احترام اور حفظ مراتب کے لیے جاتے تھے۔ ادب کا لفظ جب سے literature کے لیے مخصوص ہوا ہے اس کے بنیادی اجزاء تخیل اور جمالیات بن گٸے ہیں۔
کہانی خود اپنا آپ دکھاتی ہے اور اصل میں کہانی مختصر ہی ہوتی ہے۔ جب اسے افسانہ یا ناول بنایا جاتا ہے تو اس میں افسانوی رنگ بھرا جاتا ہے جو کہانی کو طوالت دیتا ہے۔ اگر طوالت نہ دی جائے تو کہانی وہی ہے جو ون لائنر ہے۔ ون لائنر پہ پوری فلم بنائی جا سکتی ہے اور اس پہ پورا ناول بھی لکھا جا سکتا ہے۔
کتاب”کہانی چل رہی ہے“ شہزاد نیر کی ماٸکروفکشن کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک نٸی نثری صنف سخن ہے۔ ہوسکتا ہے وقت کی کمی یا تیزرفتاری سے وجود میں آٸی ہو۔ یہ برجستہ اور بےساختہ صنف سخن ہے۔ جھٹ سے پوری کہانی کہہ دینا ماٸکروفکشن ہے۔
شہزاد نیر اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں
” کئی بار ایسے ہوا کہ گاڑی چلاتے ، دوستوں میں بیٹھے ، شاعری کرتے ایک دم کوئی کہانی اتر کر سامنے کھڑی ہو جاتی۔“
کہانیاں اصل میں ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی ہوتی ہیں ۔ اب یہ کہانی کار پر ہے کہ اس کے دل میں کون سی بات اٹک جائے اور وہ اسے کہانی کا روپ دے ڈالے۔
امریکی شاعرہ مرٸیل سکیسر نے کہا ہے
"یہ کائنات ایٹموں سے نہیں کہانیوں سے بنی ہے.
کیاکوئی مادی غیر مادی مظہر یا وقوعہ کہانی کے بغیر وجود پا سکتا ہے. مجھے لگتا ہے کہانیوں نے کائنات کو جنم دیا ہے اس لحاظ سے کوئی کہانی بھی چھوٹی نہیں ہوتی“ ( پیش لفظ ، کہانی چل رہی ہے)
یہی حقیقت ہے۔ کہانی کاٸنات کا سچ ہے اور یہ وجودِ کاٸنات کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہو گٸی تھی۔آغاز میں یہ طویل داستانوں کی صورت موجود تھی۔ جس میں مبالغہ آمیزی اور آفاقی موضوعات زیادہ ہوتے تھے ۔وقت کے ساتھ ساتھ سچی کہانیاں،ناول افسانے، ڈرامہ، فلم ان کہانیوں کی بنیاد پر پنپنے لگے ۔ کہانی میں زیادہ تر سچاٸی اور کسی قدر مبالغہ ضرور تھا جو کہانی کو خوب صورت منظر نگاری اور افسانویت دیتا رہا ہے۔اب کہانی پر مختلف تجربات ہوتے رہے جو ماٸکروفکشن کی صورت میں ڈھل چکے ہیں۔ ناول اور افسانے کی اہمیت اس صنف کے آنے سے کم نہیں ہوٸی ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماٸکروفکشن نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔
اس کتاب میں مختصر کہانیاں ایک سو چوالیس اور پانچ افسانے موجود ہیں جن میں سے اکثر کہانیاں سات اور آٹھ لائنوں پر مشتمل ہیں جیسے کہ ”اولاد مادینہ“ آٹھ سطروں میں ہمارے معاشرے میں بیٹے کی طلب اور ایک ہی سطر میں چونکا دینے والی حقیقت
”حکیم جی میرے تین بیٹے ہیں اب بیٹی چاہتا ہوں کیا اس کی بھی کوٸی دوا ہے آپ کے پاس؟“
اس مضبوط مرکزی کردار کی یہ خواہش شاید بیٹوں کے ناروا رویوں کی عکاسی کررہی ہے شاید ڈھلتی عمر میں ٹھنڈی میٹھی چھاٶں جیسے احساس کی حامل بیٹی سے ہی خدمت کی توقع ہے۔
ماٸیکرو فکشن کی یہی خوبصورتی ہے کہ قاری انجام کی تشنگی کو خود ہی پورا کرے۔اپنے خیال کے مطابق۔
کچھ اقتباسات جو نہایت متاثرکن ہیں۔
”تقویٰ “ کہانی میں زکوٰۃ کی رقم بھوکے مرتے غیر مذہبوں کو بھی نہیں دی جاسکتی۔ یہ ایسی ایک سطر ہے جو ہمارے معاشرے میں بدعتوں اور مذہبی شدت پسندی کو عیاں کرتی ہے۔
لاٸن کلٸیر”کچھ دن تو میں الجھا رہا۔پھر اپنی الجھن پر لعنت بھیج دی۔سنا ہے ایسے معاملات میں زیادہ نہیں سوچنا چاہیے۔ آخر ایک ہی ٹریک پر ایک سمت میں کٸی گاڑیاں چلتی ہیں۔بس ان کے اوقات مختلف ہوتے ہیں۔ میں نے بھی دونوں کو لاٸن کلیٸر کا سگنل دے دیا۔“
اس میں وہ ایک مرد ہونے کے باوجود مرد کی خود غرضی اور مفاد پرستی کو سرعت سے بیان کر گٸے وہ اس میں گھبراٸے نہیں۔ یہ ہمارےمعاشرے کے نفسیاتی مساٸل ہیں ۔جنہیں شہزاد نیر نے مہارت سے لکھا ہے۔
”میں جانتا ہوں کہ میرے اندر بھی ساٹھ فیصد عورت ہے۔نفیس نے شرماتے لجاتے ہوٸے کہا“
60% عورت کے نام سے ماٸیکرو ہے مختصر لیکن اس قدر جامع کہ جیسے آٸینہ مکمل تصویر دکھا دیتا ہے۔
اسطرح ”چوتھاٸی“ میں حیرت انگیز انسانی حرکات ہیں۔ نفس سے مجبور انسان کرونا کے دنوں میں بھی خود کو روک نہیں سکا اور طواٸف کے پاس آ کر کہتا ہے۔
” پہلی شرط تو یہ ہے کہ میری طرح تم بھی ماسک اور دستانے پہنو گی ۔ وہ میں تمہارے لیے لایا ہوں۔دوسری یہ کہ نہ تم مجھے ہاتھ سے چھوٶ گی نہ میں تمہیں بلکہ ہمارے وہی اعضاء مس کریں گے جو اشد ضروری ہیں۔“
ایک ماہر نباض کی طرح صاف صاف اور اختصار میں اتنی بڑی بات کہہ دینا ہرگز آسان نہیں ہے۔
پھر ریاست اور بم، سینہ ءشب ، تعویذ ،ممی، ہنستے ہوٸے رونا، اینٹ اور مسجد، کھیت کی مچھلی، رکے ہوٸے آنسو،غیرتِ ایمانی،فتح یاب،معمول،کوکھ کی بیداری ،صلہ رحمی، ڈیجیٹل انسان،مکان کا درد،کاروبار اپنی جگہ،جسے اللہ رکھے،سرخ لکیریں، نیلی عینک، ریزہ ریزہ جسم،قطرہ قطرہ زہر،درویشی میں عیاری اور دیگر کہانیاں چشم کشا ہیں۔سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ کوٸی خوردبینی عینک لگا کر کس باریکی سے اپنے اطراف بکھری پڑی یہ سیاسی ،مذہبی اور اخلاقی گراوٹیں،سازشوں کی الجھی ڈوریں اور رشتوں کے بدنما نوحے کیسے دیکھ اورسن رہا ہے پھر لکھ رہاہے ان ساری بدعتوں کو لکھنے کے لیے مہارت اور حساسیت چاہیے جو اس شاعر اور نثار کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
نازک آبگینوں جیسے مصرعے ڈھالنے والا یہ جوہری نثر کی طاقت سے بخوبی واقف ہے۔ جانتا ہے کون سی بات غزل اور نظم میں کہی جا سکتی ہے اور کون سی بات کہانی کا آہنگ مانگتی ہے۔ کہانی چل رہی ہے شاخ در شاخ پھول پھل رہی ہے۔ اسے دیکھ کر لکھنے والی ، اچک لینے والی آنکھ چاہیے جو شہزاد نیر کے پاس موجود ہے۔
جوان موت میں ” زرد پتا ذرا سا لرزا، پھر اس نے سر ہلایا
اسی اثناء میں کالے کوے نے ایک چیونٹا پکڑنے کے لیے عین اسی جگہ چونچ ماری جہاں سبز پتے کی ڈنڈی شاخ سے جڑی ہوٸی تھی۔سبز پتا ٹوٹ کر ڈولتا اور لڑکھڑاتا ہوا نیچے بہتی ندی میں گر گیا۔“
یہ تشبیہات و استعارے ،کنایے نثر کو مرصع کرتے ہیں اور کہانی کو علامتی بنا دیتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ مصنف کہانی کی ہر گھات سے واقف ہے۔ وہ اچھی طرح کہانی کی رمزوں سے شناسا ہے۔ یہ ایک خوبصورت اور خزانے جیسی کہانیوں کی کتاب ہے جو ہر گھر کے کتب خانے کی زینت بننی چاہیے ۔آپ سب کو ان ڈھیر ساری کہانیوں میں چھپی کہانیاں جان کر ہی شناساٸی کے در کھلیں گے۔
شہزاد نیر صاحب کو اس کتاب کے لیے بہت مبارک باد
میں ان کے شعری مجموعہ ”خوابشار“ سے کچھ اشعار کے ساتھ مضمون کو اختتام دیتی ہوں۔ ایک سو پچاس صفحات پر مشتمل یہ کتاب نہایت خوب صورت ہے۔بک کارنر جہلم سے شاٸع شدہ یہ کتاب نہایت عمدہ شعری مجموعہ”خوابشار“ ہے۔
اشعار کی داد دیجیے گا اور نثری جہتوں کی الگ سے ستاٸش بنتی ہے۔
پھینکی جاتی بھی نہیں راہ میں یادیں اس کی
اور یہ بوجھ اٹھایا بھی نہیں جا سکتا
جو چاہتا ہو درد کے اس پار دیکھنا
اس کو رساٸی روزنِ زخمِ جداٸی دے
اس جگہ ٹوٹ پھوٹ رہتی ہے
میرے دل میں نہ آٸیے صاحب
اتنا سانسوں سے خفا ہوں کہ نہیں مانوں گا
لوگ رو رو کے نہ اب مجھ کو مناٸیں ،جاٸیں
یہ لخت لخت روشنی تمہیں کہاں سے مل گٸی
کرن کرن کا رخ پہ انتظام کیسے ہو گیا
یہ اشعار میرا انتخاب ہیں۔ ایک مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ بہت خوب صورت شاعری ہے دنیا بھر کے رنگ ہیں۔محبت ،نفرت ،سیاست، منافقت، مزاحمت ،معاشرت ۔۔۔ چلیے محظوظ ہوتے ہیں۔
راٸگانی کے اس تسلسل میں
زیست کا مرحلہ ضروری ہے
بارشوں میں مکان بہتے ہیں
اپنے اشکوں میں بہہ گیا میں بھی
اپنی پہلی نظر سے ڈرتا ہوں
عشق باردگر نہ ہو جاٸے
ہر سمت بےشمار نگاہوں کے کیمرے
اے یار خوش نگاہ ذرا دیکھ بھال کر
دبا ہوا ہے جو اپنی انا کے ملبے میں
وہ خود کو خود سے ہٹاٸے تو عشق ہو جاٸے
آٸنہ میں سمجھتا ہوں جس کو
میری صورت سے بیزار کیوں ہے
رات کے پچھلے پہر کا بے صدا جنگل سمجھ
میری خاموشی کے اندر بے تحاشا شور ہے
یعنی باد خزاں ہے وہ لڑکی
آسرا دے کے پھر گرا بھی دے
آپ آٸیں تو دین و دنیا سے
کچھ سلام و پیام ہو جاٸے
ہم کو آخر کہیں تو رہنا ہے
چل بدن میں قیام ہو جاٸے
ایک لمبے عرصے سے میں شعراء کے لب و لہجے کو دیکھ اور سن رہی ہوں ۔ یہ میرے عہد کے معروف شاعر شہزاد نیر ہیں جنہیں بطور شاعر تو ایک عالم جانتا ہے اس لیے میں نے ان کی الگ اور منفرد جہت ”ماٸیکروفکشن “ پر زیادہ فوکس رکھا اور آپ کو ”کہانی چل رہی ہے “ سے ملوایا۔
نیک خواہشات : دعاٸیں
ثمینہ سید