- Advertisement -

اڑ گیا عشق، کہا کیسے نہیں کھلتا در

کلیم باسط کی ایک اردو غزل

اڑ گیا عشق، کہا کیسے نہیں کھلتا در
اور دیوار سے جھٹ پٹ میں نکل آیا در

بے سر و پا تو نہیں  ماضی پرستی کا جواز
گزرے وقتوں میں فصیلوں کی جگہ ہوتا تھا در

ایسا لگتا ہے کہ وہ آج بھی ٹھکرایا گیا
کوئی بھی بات چھِڑی ، بیچ میں در آیا در

اس تعلق میں کسی ہجر کا امکان نہیں
خیمہءِ خانہ بدوشاں میں نہیں ہوتا در

آخرِکار کھرا ڈھونڈ لیا سازش کا
رات بھر کھڑکی کے پہلو میں کھڑا دیکھا در

تاکہ ملنے میں سہولت ہو، کوئی رخنہ نہ ہو
پچھلی دیوار میں ہر حال میں بنواؤں گا در

اب اقامت ہو کہ ہجرت ہو کوئی فرق نہیں
بانس کی باڑ ہے اور بیچ میں اک ٹاٹ کا در

ہو نہ ہو اس کی سماعت میں کوئی مسئلہ ہے
ورنہ پہلے تو نہ یوں ہم پہ کبھی کھولا در

کلیم باسط

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
کلیم باسط کی ایک اردو غزل