- Advertisement -

کاش اس دنیا سے برائی ختم ہو جائے

سید زاہد کا ایک کالم

یہ وہ خواہش ہے جو کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ ہمارے آباؤ اجداد تمام قسم کی برائیوں کی موجودگی میں زندگی گزار کر گئے : ہم بھی ان برائیوں کی موجودگی میں زندہ ہیں۔

کاش! اس دنیا سے نشہ آور چیزیں ختم ہو جائیں۔
یہ بھی ممکن نہیں۔
نشہ وہ برائی ہے جو امرا و غربا، شاہ و گدا، دیوتا و پجاری، موحد و ملحد اور علما و جہلا سب کی انجمنوں میں رونق افروز رہی ہے۔ بلکہ وہ سبھائیں جہاں اس کا گزر بھی نہیں ہو سکتا ان کو بیان کرتے وقت بھی اس برائی کی تشبیہات ہی دی جاتی ہیں۔

محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفت جام پھرے

کسی نہ کسی شکل میں یہ ہر گھر اور ہر فرد کی زندگی کا حصہ ہے۔ ہمارے علاقوں میں خشخاش کے بیج، بھنگ کے پتے، تمباکو اور نسوار کے استعمال کو برائی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ دہی کی لسی پنجاب کا روایتی مشروب ہے جس میں ٹریپٹوفین پایا جاتا ہے جو کہ اس مقدار میں نشے کی تعریف پر تو پورا نہیں اترتا لیکن نیند کا باعث ضرور بنتا ہے۔

الکوحل یا شراب دنیا بھر میں سب سے مقبول نشہ رہا ہے۔ شراب کسی بھی معاشرے سے کبھی بھی ختم نہیں کی جا سکی۔ چائے، کافی اور کوک کی مقبولیت سے پہلے مہمانوں کو پیش کرنے کے لیے دودھ اور پھلوں کے مشروبات کے علاوہ اور کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ ان کا ذخیرہ کرنا اور فوری طور پر پیش کرنا بہت مشکل تھا۔ شراب اس مشکل کا واحد حل تھی۔ ویسے بھی اگر کسی نے صحرائی سفر پر جانا ہے، جہاں پانی کی دستیابی مشکوک ہے یا لمبے سمندری سفر پر جانا ہے تو پانی کیسے ذخیرہ کیا جائے گا؟ اس دوران اس میں کائی جم جاتی یا پھر دوسری بیماریوں کے جراثیم اس میں شامل ہو کر مسافروں کو بیمار کر دیتے تھے۔ ان تمام مجبوریوں کا ایک ہی حل تھا: شراب۔

پانی کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے اس میں شراب شامل کر دی جاتی تھی۔

برفانی علاقوں میں مسائل مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ وہاں کئی کئی دن برف پڑتی رہتی ہے۔ کھانے والی اشیا کی قلت ہو جاتی ہے تو صرف گوشت، دودھ اور چربی کام آ سکتی ہے۔ ان حالات میں شراب ایک انتہائی طاقت بخش ڈرنک ہے۔ اس کی کیلورک ویلیو تمام کھائی جانے والی اشیا میں سے چربی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

تمام مذہبی کتابوں میں اس کا ذکر ہے۔ دیوتا اور اوتار اس کے نشے میں دھت نظر آتے ہیں۔ بائبل میں بہت سے بزرگوں کا ذکر ملتا ہے جن کو یہ پلائی گئی یا انہوں نے خود پی۔

مذہبی رہنماؤں میں شراب کتنی مقبول ہے اس کا اندازہ رڈیارڈ کپلنگ کی نظم ’A smuggler‘ s Song ’کے ایک مصرع سے لگایا جا سکتا ہے۔

Brandy for the Parson, ’Baccy for the Clerk
. Laces for a lady; letters for a spy
انہیں کتابوں میں اس پر پابندی کی بھی روایات موجود ہیں۔
شراب پر پابندی اور استعمال کی آزادی ایک لمبی بحث ہے جو زمانۂ ثلاثہ میں ہمیشہ جاری رہی ہے۔

امریکہ جیسے آزاد ملک میں اس پر پابندی لگانے کا تجربہ کیا گیا۔ آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے اس کی پیداوار، فروخت اور نقل و حمل پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔ یہ ترمیم 1800 میں شروع ہونے والی میانہ روی کی اس عالمی تحریک کا نتیجہ تھی جس کی قیادت مذہبی عورتوں کے ہاتھ میں تھی۔ بعد میں اس تحریک کو چرچ کی سرپرستی بھی مل گئی اور اسے عورتوں کا جہاد کہا جانے لگا۔ پورے یورپ، امریکہ اور دنیا کے باقی ممالک میں بھی اس تحریک کے نتیجے میں شراب پینے والوں کو اس کے استعمال میں میانہ روی اختیار کرنے اور ترک کر دینے پر زور دیا جاتا رہا۔

دسمبر 1919 میں منظور ہونے والی اس ترمیم کے ملک کے عوام پر کیا اثرات ہوئے؟ یہ ایک انوکھی کہانی ہے۔

اس ترمیم پر مکمل طور پر عمل درآمد کروانا مشکل ہو گیا۔ اس کے بعد شراب کی سمگلنگ بڑھ گئی۔ غیر قانونی مے خانے، شراب کی دکانیں اور بنانے والے غیر معیاری کارخانے بھی پورے ملک میں پھیل گئے۔ انڈسٹری میں استعمال ہونے والی الکوحل جو مختلف کیمیکل ملا کر انسانی استعمال کے لیے مضر بنا دی جاتی تھی وہ بھی غیر قانونی اڈوں تک پہنچ جاتی اور ملاوٹ کے کام آتی۔ ان جرائم کو تحفظ دینے کے لیے کریمنل گینگز بننا شروع ہو گئیں۔

1929 میں امریکی شہر اٹلانٹا میں انڈر ورلڈ کے بڑے بڑے دادا گیر جمع ہوئے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے لیے سنڈیکیٹ وجود میں آیا۔ نیویارک میں اطالوی سمگلرز اور دیگر غنڈوں کی مربوط سرگرمیوں کی وجہ سے امریکی مافیا کرائم سنڈیکیٹ کو مضبوطی ملی۔ اس کے بعد سمگلنگ، منشیات کی خرید و فروخت، جوا، مہاجنی، جسم فروشی، اغوا برائے تاوان اور قتل جیسے گھناؤنے جرائم میں بہت اضافہ ہو گیا۔ یہ غنڈے اتنے طاقتور ہو گئے کہ صرف 33 سال کی عمر میں بدنام زمانہ ’آل کاپونے‘ کو جب گرفتار کیا گیا تو صرف سات سالہ دادا گیری سے کمائی گئی دولت سو ملین ڈالرز سے بھی زیادہ تھی۔ اس دور کی مشہور فلم
Scarface: The Shame of a Nation
اسی کے عرفی نام پر بنی تھی۔

سمگلنگ عام ہونے کی وجہ سے دیگر اشیا کی غیر قانونی تجارت بھی بڑھ گئی۔ ٹیکس کولیکشن کم ہو گئی اور جرائم کے کنٹرول پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ ہو گیا۔ ان سارے مسائل کی وجہ سے پولیس اور عدالتی نظام پر اتنا بوجھ پڑا کہ وہ تقریباً مفلوج ہو گئے۔

زیادہ گاڑھی شراب کی سمگلنگ زیادہ نفع دیتی تھی اس لیے اس کا استعمال بڑھ گیا۔ بیئر اور وائن کی ڈیمانڈ کم ہو گئی جب کہ وہسکی، رم اور واڈکا کی فروخت بڑھ گئی۔ شرابی افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا اس کے ساتھ ہی دیگر منشیات کا استعمال بھی بڑھ گیا۔ یاد رہے کہ شراب کے علاوہ دیگر تمام منشیات کی کیلورک ویلیو تقریباً صفر ہوتی ہے اور زیادہ تر انتہائی خطرناک بھی ہوتی ہیں۔

1928 کے الیکشن میں یہ بحث چل پڑی کہ ملک کے برے معاشی اور سیکورٹی حالات کی وجہ یہ ترمیم ہے لیکن جیتنے والے صدر نے اسے ’نیک کام‘ قرار دے کر جاری رکھا۔ ملکی معیشت مزید خراب ہو گئی۔ ان حالات کو ’گریٹ ڈپریشن‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اگلے الیکشن کے بعد 1933 میں صدر روزویلٹ نے اقتدار سنبھالتے ہی اکیسویں ترمیم کی توثیق کے ساتھ وفاقی سطح پر شراب کی ممانعت کو منسوخ کر دیا۔

یہ تو انسانی خوراک اور ملکی معیشت پر شراب کے اثرات کی بات تھی اگر دیکھا جائے تو انسانی معاشرے کی اخلاقیات پر شراب کے بہت اثرات ہیں۔ گرچہ اس پر بھی صدیوں سے بحث جاری ہے۔ دونوں طرف مضبوط دلائل موجود ہیں لیکن ایک بات دیکھی گئی ہے کہ موجودہ دنیا کے جن ممالک میں شراب کی ممانعت نہیں وہاں جھوٹ اور منافقت کم ہے۔ جہاں جہاں اس کی کھلے عام فراہمی پر پابندی ہے وہاں دیگر منشیات کا استعمال خطرناک حد تک زیادہ ہے اور انہی ممالک میں جرائم کے ساتھ ساتھ جھوٹ، مکاری، دھوکا دہی، دغابازی اور منافقت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔

جب اس دنیا سے برائی ختم نہیں کی جا سکتی، جب ہم اپنے ملک سے شراب اور دیگر منشیات کو ختم نہیں کر سکتے تو کیوں نہ ہم بھی ایک مرتبہ کچھ اور سوچ لیں۔ اب تو دنیا ایسی پابندیوں کو بھول کر بہت آگے بڑھ چکی ہے۔

ماڈرن دنیا کی تقریباً تمام یونیورسٹیز طالب علموں کو منشیات کے استعمال، نقصانات اور مقدار پر مکمل رازداری کی گارنٹی دیتے ہوئے انہیں گائیڈ کرتی ہے۔ ان کو نقصانات سے بچانے کے لیے ہدایات جاری کرتی ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین مختلف تقریبات کے دوران یہ سہولت بھی دیتی ہے کہ وہ جان سکیں جو بھی ڈرگ یا شراب لینے لگے ہیں اس میں ملاوٹ تو نہیں؟ اس میں نشہ کی مقدار اتنی ہی ہے جتنا انہیں بتایا گیا تھا کیونکہ ڈرگز لینے والوں کو زیادہ تر نقصان ملاوٹ اور مقدار کی کمی بیشی سے ہوتے ہیں۔

 

سید زاہد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شیخ خالد زاہد کا اردو کالم