اُفق کے پار جانے والے آنسو
سفید آنچل کے ایک کونے میں
میرے آنسو سنبھال کر اس طرح وہ بولی
نہ ایسے رونا
اے میرے بچے !
یہ زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نام ھے دُکھوں کا
تمہارے آنسو مرے جگر پر ٹپک پڑے ہیں
نہ ایسے رونا
اے میرے بچے !
میں روتے روتے ھی سو گیا تھا
اُفق کے اُس پار سے مری ماں
مرے دُکھوں پر اداس ھو کر
مری تسلی کو آن پہنچی
وھی مقدس ، ندیم آنکھیں
رحیم آنکھیں ، کریم آنکھیں
اُفق کے اُس پار سے جو مجھ کو
بڑی محبت سے دیکھتی ہیں
مری نگاھوں سے دور
لیکن مرے دُکھوں کی نمی سے جھلمل
وہ میرے اشکوں کواپنے پلّو میں باندھ کر
آسماں کے اُس پار لے گئی ھے
یہ لوگ کہتے ہیں : مائیں مرتی ھیں
مائیں مر کر بھی جاگتی ہیں
جو بچے روئیں تو سوتی کب ھیں !!
شالا جیون جگ دیاں ماواں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
امی کا اچانک انتقال 30 جولائی 1998 کو ہوا اور تدفین 31 جولائی کو۔
میں ہزاروں میل دور ” رٹو” ضلع استور میں گلیشیر ٹریننگ کررہا تھا۔ وہاں صرف دو گھنٹے کے لیے سیٹلائٹ فون آن ہوتا تھا۔ سی ایم ایچ گوجرانوالہ سے وفات کی اطلاع ملتے ہی واپس چل پڑا۔ رٹو سے استور، بونجی ۔ ۔ پھر بس کا انتظار ۔ ۔ چوبیس گھنٹے کا سفر۔ جب میں پہنچا تو امی کی تدفین ہو چکی تھی ۔
یہ نظم اس کے بعد ایک واقعے اور خواب پر مشتمل اور مبنی بر صداقت ہے۔
شہزاد نیّرؔ