اردو غزلیاتباقی صدیقیشعر و شاعری

غم اور خوشی کے راستے آ کر جہاں ملے

باقی صدیقی کی ایک اردو غزل

غم اور خوشی کے راستے آ کر جہاں ملے
کچھ مہرباں جدا ہوئے کچھ مہرباں ملے

جن کے طفیل بزم تمنا میں رنگ تھا
وہ لوگ تجھ کو گردش دوراں کہاں ملے

راہوں پہ آج ان کا تصور بھی ہے گراں
منزل کے پاس کل جو ہمیں کارواں ملے

اہل نظر سے دل کی مہم سر نہ ہو سکی
کچھ سرنگوں ملے ہیں تو کچھ سرگراں ملے

روداد شوق تشنۂ اظہار ہی رہی
ملنے کو ہم خیال ملے، ہم زباں ملے

خوں رو رہے تھے کل جو بہاروں کی یاد میں
وہ آج بے نیاز غم گلستاں ملے

باقیؔ نہ تھی اگرچہ فریب وفاکی تاب
پھر بھی رُکے نقوش محبت جہاں ملے

باقی صدیقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button