امر جلیل یا امر۔۔۔۔۔؟؟
ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس کی اساس اسلام ہے۔جس کا آئین قرآن ہے۔لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ یہ سب کچھ کتابوں تک ہی محدود رہ گیا ہے۔ہماری عملی زندگیاں اس اعزاز سے سراسرمحروم ہیں کہ ان قوانین پر عمل بھی کیا جائے جو ہمارے لیے مکمل ضابطہ حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔آئے دن کچھ ایسے واقعات کارونما ہونا معمول بنتا جا رہا ہے کہ جس سے ہماری مسلمانی تو کیا انسانیت بھی خطرے میں پڑتی جا رہی ہے۔ کچھ توجرم کر کے مجرم و گنہگار اور ظالم ہیں اور اکثریت کی خاموشی انھیں مجرم بنا کر رکھ دیتی ہے۔
بقول راقم:
پوچھا کہ چپ ہو کیوں تو یہ کہنے لگا گواہ
دیکھا ہے ظلم آنکھ سے ظالم کا خوف ہے
ہمیں آج تک یہی نہیں پتہ چل سکا کہ کن باتوں پر بولنا ہے اور کن پر خاموش رہنا ہے۔مثال کے طور پر کسی بڑے لیڈر کی کتے کے ساتھ تصویر پر ہم سب پورا پورا ہفتہ اپنی عقل کل کااظہار کر سکتے ہیں اور اپنی ظریفانہ طبیعت کے جوہر دکھا سکتے ہیں لیکن اگر کوئی کتا بڑی پاکیزہ،برگزیدہ اورروحانی ہستیوں کی توہین کرے کہ جن کی حرمت نصِ قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہے تو ہمیں نہیں پتہ چلتا کہ بولنا کیا ہے۔اور پھر ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ بولنے کا صحیح مقام،وقت اور طریقہ کیا ہے۔اسی لیے اصل مسئلہ وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے اور کئی دوسرے مسائل جنم لے لیتے ہیں۔احتجاج کے طریقہ کے غلط اور درست ہونے کا فیصلہ بھی عجیب ہوتا ہے کہ جب چاہا خود آئینی احتجاج کر لیا اور جب چاہا دوسرے کا احتجاج غیر آئینی قرار دے دیا۔ویسے بھی ہمارے ہاں اب یہ دستور زور پکڑ گیا ہے کہ ایک مسئلے کا حل ہی یہ ہے کہ دوسرا مسئلہ کھڑا کر دیا جائے۔پہلے مسئلے سے عوام کی توجہ کا ہٹنا ہی اصل میں اس مسئلے کا بہترین اور تسلی بخش حل ہے۔ہمیں اگر ترقی کرنی ہے تو ہمیں اب ان چیزوں سے نکلنا ہو گا۔خیر اصل تکلیف کی جانب آتے ہیں۔ کچھ دن پہلے امر۔۔۔۔نام کے ایک شخص کا کلپ نظر سے گذرا جس میں اس نے صریحا ًپروردگار کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے۔اور کسی بند کمرے میں چھپ کر نہیں بلکہ ادبی فیسٹیول نام کی ایک تقریب میں سینکڑوں افراد کے سامنے کی ہے اور خوب داد بھی وصول کی ہے۔ استغفراللہ۔ہمارے ہاں آئے روز مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخیاں کی جاتی ہیں جن پر کوئی خاص قانونی کارروائی نہیں کی جاتی۔جس سے ان گھٹیا لوگوں کے حوصلے مزید بڑھ جاتے ہیں۔اور اب بات خالق کائنات کی گستاخی تک پہنچ گئی ہے۔یعنی نافرمانیوں سے بات نکل کر نعوذ باللہ توہین اور گستاخی تک آ گئی ہے۔ کیا آئین پاکستان کو اب حرکت میں نہیں آنا چاہیے؟علماء بتائیں کیاپروردگار کی توہین کرنا کھلا کفر نہیں ہے؟اگر ہے تو اس کی زبان کیوں بند نہیں کرائی جا رہی؟مجھے حیرت ہے کہ ابھی تک اس معاملے میں خاموشی ہے۔کوئی طبقہ بھی اس کی مذمت نہیں کر رہا۔چند ایک علماء نے مذمت کی ہے باقی نجانے کس سوچ میں مبتلا ہیں۔اور کس انتظار میں ہیں۔ایسے شر پسند اسلام بیزار گستاخ لوگوں سے یہ پوچھنا تو چاہیے کہ آخر تمھیں تکلیف کیا ہے اور پھر حکومت کو چاہیے کہ آئینی طریقوں سے اس کی وہ تکلیف رفع کی جائے۔ہمیں کسی کے بھی ایمان پر شک ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ سب غیرت ایمانی رکھتے ہیں۔پرائم منسٹڑ عمران خان صاحب خود بڑے عاشق رسولؐ ہیں۔ہر کوئی اسلام سے محبت کرتا ہے اور اسلام کا مطلب ہی یہ ہے کہ پروردگار اور اس کے حبیبؐ سے محبت کی جائے اور محبت کا تقاضا کسی گستاخ کو برداشت نہیں کرتا۔تو کیا یہ سارے پھر اس انتظار میں ہیں کہ عوام سڑکوں پر نکلے،دھرنا دے،مطالبات رکھے،اس میں احتجاج کا طریقہ کار نا معلوم وجوہات کی وجہ سے متشددانہ ہو جائے۔ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔اور ایسی نوبت آنے بھی نہیں دینی چاہیے۔کسی کو سزا دینا لوگوں کا نہیں بلکہ ریاست کا کام ہے عدلیہ کا کام ہے اور یہ اختیار انھی کو جچتا ہے۔اور انھی کے استعمال کی چیز ہے۔بروقت ایسے افراد کے خلاف قانون حرکت میں آنا چاہیے تا کہ کسی کے پاس بھی قانون ہاتھ میں لینے کا ذرا سا بھی جواز باقی نہ رہے۔دوسری بات یہ کہ اس شخص کی گستاخی کرنے پر تو حیرت ہے ہی لیکن اس سے بڑھ کر افسوس اور حیرت اس مجمعے پر ہے جو سن سن کر داد دے رہے ہیں تالیاں بجا رہے ہیں۔اکثر گستاخیاں کرنے والے عوام کی نظر میں ہوتے ہیں لیکن پیچھے واہ واہ کرنے والے اور تائید کرنے والوں کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا کہ اس شخص کی تائید میں اب وہ سب بھی اسی گستاخ ہی کی مثل ہیں۔افسوس ہے کہ کسی ایک نے آگے بڑھ کر اسے نہیں ٹوکا،اسے نہیں روکا۔الٹا کچھ لوگ اس کی بلاوجہ فضول بھونڈی تائید کر رہے ہیں۔اس کا دفاع ایسے طریقے سے کر رہے ہیں جو انتہائی مضحکہ خیز ہے۔جیسے ایک شخص فرما رہے تھے کہ جو کلپ آپ لوگوں نے سنا ہے وہ 8 منٹ کا ہے جبکہ پوری ویڈیو سنیں جو کہ 1 گھنٹہ 14 منٹ کی ہے تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ اس پرآپ بلاوجہ تنقید کر رہے ہیں۔اب اس لنڈے کے فلاسفر سے پوچھا جائے کہ ویڈیو ایک گھنٹہ چھوڑ کر دس گھنٹے کی بھی ہو تو جو گستاخیاں وہ کر رہا ہے اس کے معنی کیسے بدل جائیں گے۔؟؟؟؟تمام علماء و مفتیان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی شرعی ذمہ داری پوری کریں اور اس پر ایک ذمہ دارانہ فتویٰ دیں،اس کی شرعی حیثیت بیان کریں اور ریاست کی رہنمائی کریں اور ایسے معاملات میں عوام کی بھی تربیت کریں کہ اسلامی حکومت کی موجودگی میں کوئی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔لیکن ریاست کی طرف سے ایسے فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے عوام پریشان ہوتے ہیں۔ہمیں شدت پسندی کو ہر صورت ترک کرنا ہے۔ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔لیکن ایسے افراد کے خلاف ریاست کا حرکت میں آنا اشد ضروری ہے۔ایسے واقعات ہمارے ایمان کا امتحان ہوتے ہیں اور ہر امتحان میں فیل نہیں ہوا جا سکتا۔
اویس خالد