لہر حالات کی اک زیر زمیں ہوتی ہے
زیست ہر بات پہ کیوں چیں بہ جبیں ہوتی ہے
زندگی بھی تو الجھتی ہے سیاست کی طرح
شعلہ ہوتا ہے کہیں آگ کہیں ہوتی ہے
روشنی رنگ بدلتی ہے تمنا کی طرح
ہم بھٹک جاتے ہیں منزل تو وہیں ہوتی ہے
فاصلہ بھی ہے نگاہوں کے لئے اک جادو
ہاتھ جو آ نہ سکے چیز حسیں ہوتی ہے
بیٹھے بیٹھے چمک اٹھتی ہیں نگاہیں باقیؔ
دور کی شمع کہیں اتنی قریں ہوتی
باقی صدیقی