مَیں چھوٹے لوگوں کو پہلے بَڑا بناتا تھا
پھر اس کے بعد انھیں آئنہ دِکھاتا تھا
اِسی لئے تو درختوں کے حافظے میں ہوں
مَیں روشنی کےلئے لکڑیاں جلاتا تھا
تجھے کہا تھا کہ سائے کا اعتبار نہيں
کہاں گیا جو ترے ساتھ آتا جاتا تھا
یہ شاعری تو بہت بعد کا معاملہ ہے
مَیں اِس سے پہلے یہاں بکریاں چَراتا تھا
گَڑا ہوا تھا کہیں سنگِ میل کی صورت
ہر ایک شخص مجھے دیکھنے کو آتا تھا
وہ ایک زخم کی بھی تاب لا نہيں پایا
جو دوسروں کےلئے بَرچھیاں بناتا تھا
زمین پاؤں پکڑتی تھی آتے جاتے ہوئے
اور آسماں مجھے اپنی طرف اُڑاتا تھا
پھر ایک دن مجھے دریا نے آ لیا , عامی
مَیں کاغذوں سے بہت کشتیاں بناتا تھا
عمران عامی