اسلام آباد آئے اسے تیسرا دن تھا سوچا تھا یہاں آکے بزی ہو جائے گی تو کیا پتا زوار کی یادیں اس کا پیچھا چھوڑ دیں پر یہ اس کی خام خیالی تھی وہ ایک دن ہاسپٹل نہیں گئی تھی اٹھتے بیٹھتے اسے وہی یاد آتا انجانے میں ہی سہی وہ اس کی کال کا انتظار کرنے لگی تھی حالانکہ وہ جانتی تھی کہ وہ کیسے اس کو فون کرے گا لیکن پھر بھی دل کہتا تھا کبھی تو وہ پتا لگا ہی لے گا اتنے دنوں میں وہ یہ تو جان ہی گئی تھی کہ وہ زوار سے محبت کرنے لگی ہے لیکن اس فیلنگ انکاری تھی وہ فواد سے بےوفائی نہیں کرسکتی تھی بہت دنوں سے وہ فواد کو کئی بار کال کر چکی تھی پر وہ اب اس کا فون نہیں اٹھاتا تھا آج بھی وہ اسے کال کر رہی تھی اتنی کالز کی اس نے پر بےسود۔۔۔۔
اس نے دوبارہ کال کی اور اب کی بار فون اٹھالیا گیا
فواد اس ٹائم اپنی نیو گرل فرینڈ کے پاس بیٹھا تھا سیل پہ چمکتا نام ناگواری سے دیکھا اور کال ریسیو کی
” کون ہو کیوں فون کررہی ہو بار بار”
” فواد میں پریشے ہوں ”
” پریشے۔۔۔۔ اوہ ہاں ہاں پریشے۔۔۔۔۔ پریشے زوار ” پریشے کو دھچکا لگا
” فواد تم۔۔۔۔”
” چپ کرو۔۔۔۔۔ اور میرا پیچھا چھوڑو اب ”
"فواد میں اسے چھوڑ آئی ہوں ”
” اوہ۔۔۔۔۔ تو طلاق یافتہ ہو۔۔۔۔۔ میرا کیا دماغ خراب ہوا ہے جو تم جیسی طلاق یافتہ سے شادی کروں ”
” فواد۔۔۔۔”
” نام مت لو میرا۔۔۔۔۔ اور رہی محبت کی بات تو وہ تو مجھے تم سے تھی ہی نہیں جسٹ پیسوں کی ضرورت تھی جو تم پوری کرتی تھیں اور تم سے شادی کا مقصد بھی یہی تھا ”
” واااٹ۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔تم مجھے یوز کررہے تھے ”
” ہاں۔۔۔۔۔ آسان لفظوں میں یہ ہی سمجھ لو ” وہ لاپرواہی سے بولا
” اور ہاں آئیندہ مجھے کال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے”
کہہ کر اس نے فون رکھ دیا بہت دیر تک تو اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے اور جب سمجھ آئی تو اس کا دھاڑیں مار مار کے رونے کا دل چاہا اتنا بڑا دھوکا اس کے ساتھ۔۔۔۔۔
فواد سے اچھا تو زوار تھا جس نے اس سے بھلے زبردستی نکاح کیا لیکن اس نکاح کے باوجود اپنی کوئی غرض ظاہر نہ کی
اور فواد وہ تو منگنی سے بھی پہلے سے اپنے کام نکلواتا رہا اسے یاد آیا کہ جب بھی وہ فون کرتا اپنے کام کے لیے کرتا ورنہ وہ تو اسے پوچھتا تک نہ تھا
اور زوار ہر روز اسے فون کرتا اس کی کڑوی باتیں سہتا رہتا اس کے لیے اپنے آپ کو تک کو بدل دیا اس نے تو کیا محبت وہ تھی جو زوار اس سے کرتا تھا؟؟؟
وہ زوار اور فواد کا موازنہ کرنے لگی تھی۔
—————-
زوار اسے ڈھونڈتا ہوا لاہور پہنچ گیا تھا اس کے گھر پہ گیا تو تالا لگا پایا چوکیدار نے بتایا کہ وہ تو اسلام آباد لے گئے ہیں
” کہاں تک چھپتی پھرو گی پری مجھ سے۔۔۔۔ کہاں تک۔۔۔۔ میں تمہیں ڈھونڈہی لوں گا”
وہ خود سے بولا
—————
پریشے اب پھر سے اسی گاؤں جانا چاہتی تھی جہاں اس کی خوشیاں تھیں جہاں اس کا زوار تھا فواد تو کب جا اس کے دل سے اتر چکا تھا اب فواد کا ذکر تک وہ سننا نہیں چاہتی تھی وہ اب جلد سے جلد زوار سے ملنا چاہتی تھی اسے معلوم تھا وہ اس سے ناراض ہو گا پر وہ اسے منا لے گی
اس نے پھپو کو سب کچھ بتانے کا فیصلا کیا
رات کو پھپو اپنے روم میں آرام کر رہی تھیں کہ پریشے چلی آئی
” خیریت بیٹا۔۔۔۔۔اس وقت”
” جی پھپو آپ سے کچھ بات کرنی ہے”
” ہاں بیٹا بولو کیا بات ہے۔۔۔ بیٹھو”
” پھپو۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔” وہ جھجکی
” بولو بیٹا۔۔۔۔۔۔ جھجک کیوں رہی ہو بچپن سے آج تک تم نے ہر بات مجھ سے بےجھجک کی ہے پھر یہ آج جھجک کیوں ”
” پھپو وہ۔۔۔۔۔فواد نے جو آپ کو فون پہ بتایا تھا نا نکاح کا”
وہ آہستہ آہستہ بتانے لگی
” پھپو وہ۔۔۔ وہ سچ کہہ رہا تھا” پھپو شاکڈ رہ گئیں
” کیاااااا۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔یعنی تم۔۔۔۔تمہارا نکاح۔۔۔۔۔”
” جی پھپو۔۔۔ پر یہ ”
"بسسسس۔۔۔۔۔ مجھے کچھ نہیں سننا یہ بتاؤ تمہارا نکاح تمہاری مرضی سے ہوا ہے؟؟؟”
” پھپو میں بتاتی ہوں ”
” میں نے پوچھا ہے تمہارا نکاح تمہاری مرضی سے ہوا ہے ”
” جی۔۔۔۔۔ جی پھپو پر۔۔۔ پر یہ پورا سچ نہیں ہے آپ۔۔۔ آپ تو مجھے جانتی ہیں نا "” پھر کیا سچ ہے۔۔۔ میں تم سے پوچھا تم نے جھوٹ بولا کہ نہیں اور اب تم کہہ رہی ہو کہ فواد سچ کہہ رہا ہے”
” پھپو یہ نکاح جیسے آپ سمجھ رہی ہیں ویسے نہیں ہوا جیسے آپ سمجھ رہی ہیں ” اور پھر پری نے ساری کہانی سنا ڈالی
پھپو نے آگے بڑھ کے اسے گلے سے لگا لیا
” ہائے میری بچی۔۔۔ اتنے دن تک مجھ سے کیوں چھپایا”
” میں آپ کو پریشان نہیں دیکھنا چاہتی تھی پھپو تب ہی نہیں بتایا ”
” میری بچی۔۔۔۔۔۔میری جان” وہ دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کے رونے لگیں
” ہم ان پہ کیس کروا دیں گے انہیں۔۔۔ انہیں ہر حال میں تمہیں طلاق دینی ہو گی” پریشے کرنٹ کھا کے پیچھے ہوئی
” نہیں۔۔۔۔۔نہیں پھپو”
” مگر کیوں؟؟؟ ”
” وہ نکاح جو کبھی میری مجبوری تھا وہ اب میری زندگی کا حصہ ہے۔۔۔۔۔ وہ آدمی جسے مجبوری میں میں نے اپنا شوہر بنایا وہ اب میری کل کائنات ہے ”
” پر بیٹا وہ آدمی پتا نہیں کیسا ہو ویسے بھی یہ جاگیردار لوگ اچھے نہیں ہوتے”
” نہیں پھپو۔۔۔۔۔ وہ وہ بہت اچھا ہے۔۔۔۔۔ پتا ہے اس نے میرے لیے اپنے آپ کو بدل دیا۔۔۔ اس نے مجھ سے بے غرض محبت کی سوائے میری محبت کے مجھ سے کچھ نہ چاہا ”
” اور فواد۔۔۔۔۔”
” نام مت لیں اس کا میرے سامنے۔۔۔۔۔ آپ ٹھیک کہتی تھیں وہ بہت لالچی ہے وہ اس لالچ میں ہی مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا شکر ہے اللٰہ کا اس نے مجھے ضائع ہونے سے بچالیا اور ایک ایسے آدمی کے نصیب میں لکھا جو مجھ سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔اب مجھے معلوم ہو رہا ہے کہ اللٰہ نے مجھے بہت پیار سے بنایا ہے وہ کیوں مجھے غلط آدمی کے ہاتھوں ضائع ہونے دیتا”
” یہ تو ٹھیک کہا اللٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے”
” پری نام کیا ہے اس کا؟؟؟ ”
” ملک زوار” پریشے نے پہلی بار یہ نام محبت سے لیا تھا
” میں ملنا چاہتی ہوں اس سے”
” کل چلیں گاؤں پھپو” وہ ایک دم تیار ہوئی
” توبہ ہے لڑکی یہاں آنے کی بھی جلدی تھی اور جانے کی بھی”
پری مسکرادی آج بہت دنوں بعد وہ یوں دل سے مسکرائی تھی۔
————-
ملک وجاہت تو اسے دیکھ کے ڈر ہی گئے تھے ان کو یہ تو پتا تھا کہ وہ ضد کا پکا ہے پر اس کی جنونیت اب دیکھی تھی انہیں اپنا یہ بیٹا جان سے پیارا تھا
” آپ کیوں میرے پتر کی زندگی داؤ پہ لگا رہے ہیں ملک صاحب۔۔۔۔۔ میرے بچے کا کچھ تو خیال کریں ” اماں پریشانی سے بولیں
” تو کیا کریں ہم اس کی بے جا فرمائش پوری کردیں ”
” ہاں کردیں۔۔۔۔۔ زندگی تو میرے پتر نے گزارنی ہے اس کے ساتھ ہمیں نہیں۔۔۔۔۔ جہاں وہ خوش وہاں ہم”
” خدارا یوں زبردستی نہ کریں ورنہ جان لیں ضد میں وہ آپ سے چار ہاتھ آگے ہے اگر اس نے اپنے ساتھ کچھ کرلیا تو۔۔۔۔۔ دیکھا نہیں اس دن کیسے بندوق اٹھا لی تھی” انہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ پھر بولیں
” وہ آج تک آپ کا فرمابردار رہا ہے اس نے آج تک آپ کی کوئی بات نہیں ٹالی کیا آپ اس کی ایک ضد پوری نہیں کر سکتے”
” وہ ہم سے کچھ بھی مانگے ہم ہر خواہش پوری کریں گے پر بےجا ضد نہیں ”
کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئے پیچھے اماں بہت دیر تک روتی رہی تھی زوار کا فون بھی نہیں لگ رہا تھا وہ پاگلوں کی طرح اس لڑکی کو ڈھونڈنے میں لگا ہوا تھا ایک لڑکی کے پیچھے وہ یوں پاگل ہو جائے گا انہوں نے سوچا نہ تھا وہ دل ہی دل میں اس کی عافیت کی دعا کرنے لگیں۔
بینا خان