آپ کا سلاماختصاریئےاردو تحاریراسلامی گوشہانور علی

آسمان، چاند، ستارے اور انسان کی تلاش

انور علی کی ایک اردو تحریر

دنیا کے آغاز سے ہی آسمان میں بے شمار ستارے، سیارے اور راز چھپے ہوئے ہیں۔ لیکن اس پوری کائنات میں اللہ تعالیٰ نے صرف اس زمین کو چُنا کہ آدم اور اس کی اولاد یہاں رہیں۔ آخر کیوں؟ کیا اللہ کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ دوسری دنیاؤں پر بھی زندگی پیدا کرتا؟ پھر زمین ہی کو انسان کے لیے مرکز کیوں بنایا گیا؟

آج جب انسان سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر چکا ہے، تو وہ زمین کو چھوڑ کر چاند اور دوسرے سیاروں پر گھر بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ مگر کیا یہی ترقی ہے؟ یا یہ انسان کے اپنے خالق سے دور ہونے کا راستہ ہے؟

اللہ تعالیٰ نے جب آدم کو پیدا کیا، تو اسے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا۔ زمین انسان کے لیے صرف رہنے کی جگہ نہیں، بلکہ ایک امتحان بھی ہے۔ یہیں انسان کو اپنے وجود کا مقصد تلاش کرنا ہے۔ "زمین کو چھوڑ دینے کی خواہش، آخر کس خوف کا اظہار ہے؟”

سب سے عقل مند انسان تو اللہ کے نبی تھے۔ مگر انہوں نے کبھی بھی دوسری دنیاؤں میں جانے کا راستہ نہیں ڈھونڈا۔ کیوں؟ کیونکہ ان کا مقصد زمین پر رہتے ہوئے انسانیت کی اصلاح تھا، نہ کہ اس دنیا سے فرار حاصل کرنا۔

اقبال نے کہا تھا:
"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے”

انسان کی اصل ترقی یہی ہے کہ وہ اپنی "خودی” کو پہچانے، اپنے اندر کی قوت کو بیدار کرے۔ مگر افسوس، آج کا انسان اپنی حقیقت سے بھاگ رہا ہے۔ وہ سائنس کو اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھا ہے، حالانکہ اصل نجات اپنے آپ کو پہچاننے میں ہے۔

اقبال پھر کہتے ہیں:
"ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں”

مگر یہ عشق کیا ہے؟ کیا یہ عشق نئی دنیاؤں کی تلاش میں ہے؟ یا یہ عشق اپنی ذات کو پوری کائنات میں پہچاننے کا نام ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ زمین پر ہی اللہ نے انسان کے لیے ایسے مواقع رکھے ہیں، جہاں وہ اپنی حقیقت کو جان سکتا ہے۔ زمین کو چھوڑ کر نئی جگہوں پر جانے کی خواہش شاید انسانی کمزوری ہے — انسان کا اپنے وجود سے فرار ہے۔
اصل سفر چاند تک نہیں، بلکہ انسان کے اپنے اندر تک ہے۔

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہماری اصل طاقت کائنات کو فتح کرنے میں نہیں، بلکہ اپنے اندر کی دنیا کو فتح کرنے میں ہے؟
میں سوچتا ہوں کہ:

"خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الا اللہ”

جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اس نے پوری کائنات کو تسخیر کر لیا۔ اور جس سے اس کی ذات چھپ گئی، وہ پوری دنیا کو فتح کرکے بھی خالی رہا۔

آخر میں، سوال یہ نہیں کہ انسان چاند پر گھر بناتا ہے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسان اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے تیار ہے؟
کیا وہ اپنی "خودی” کو بیدار کر سکتا ہے؟
کیا وہ زمین پر رہتے ہوئے اس پیغام کو سمجھ سکتا ہے، جو اللہ نے اس کے لیے بھیجا ہے؟
اے انسان، تُو کہاں بهاگ رها هي ؟ اپنے آپ سے یا اپنے رب سے؟

انور علی

انور علی

انور علی — عزم اور خدمت کا سفر انور علی کا تعلق لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں، خیر محمد آریجا تحصیل باقرانی سے ہے۔ بچپن سے ہی تعلیم کے لیے جدوجہد کی، جہاں وسائل کی کمی اور معاشرتی ناانصافیاں تھیں۔ علامہ اقبال کے فکر اور خودی کے تصور نے انہیں زندگی کا نیا مقصد دیا۔ آج، انور علی اپنے وسائل سے ایک تعلیمی فاؤنڈیشن چلا رہے ہیں، جو 275 غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ ان کا خواب ہے کہ یہ بچے معاشرے کے قابل اور ذمہ دار فرد بنیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کے لیے جینا ہے، اور انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button