منزل کی خبر نہ رہگزر کی
کیسی صورت ہے یہ سفر کی
بوجھل پلکیں، اداس نظریں
فریاد ہے میری چشم تر کی
اندر سے ٹوٹتے رہے ہیں
باہر سے زندگی بسر کی
دل کے قصّے میں کیا رکھا ہے
باتیں ہیں کچھ ادھر ادھر کی
میں رات اداس ہو گیا تھا
اتنی تھی روشنی قمر کی
کچھ ہم میں نہیں بیاں کی طاقت
کچھ وقت نے بات مختصر کی
اندر کچھ اور داستاں ہے
سرخی کچھ اور ہے خبر کی
باقی صدیقی