بوڑھے پیپل پہ بیٹھی ہوئی
ملگجی شام نے
جھک کے انگڑائی لی
ڈگمگائی ہوا
سر اُٹھایا کسی مُردہ پتے نے
شاخوں سے چمٹی ہوئی
ننھی چڑیوں کا ہنگام
تھمنے لگا
تم نہیں آئے تھے
وقت چلتا رہا
قطرہ قطرہ ٹپکتی رہی چاندنی
اور گرتے رہے
چاند کی زرد آنکھوں سے
اُلجھی ہوئی آس کے پیلے سکے
پگھلتی ہوئی رات کے …دو …پہر
لمحہ لمحہ منڈیروں پہ جمتے رہے
کچھ سلگتے ہوئے سائے
یادوں کی گدلائی الگن پہ
لٹکے رہے
ایک آہٹ تھی کیا
بڑھ کے دیکھا مگر
تم نہیں آئے تھے
کرچیوں سے بھری
دو نگاہیں لگی ہی رہیں
موڑ کے اس طرف
اَن چھوئے، اَدھ کِھلے
خواب رکھے رہے
رات ڈھلنے لگی
تم نہیں آئے تھے
گلناز کوثر