بدن کی سرزمین پر تو حکمران اور ہے
مگر جو دل میں بس رہا ہے مہربان اور ہے
جو مُجھ سے منسلک ہُوئیں کہانیاں کُچھ اور تھیں
جو دِل کو پیش آئی ہے وہ داستان اور ہے
یہ مرحلہ تو سہل تھا محبتوں میں وصل کا
ابھی تمہیں خبر نہیں کہ امتحان اور ہے
وہ دن کدھر گئے مِرے وہ رات کیا ہوئی مِری
یہ سرزمین نہیں ہے وہ یہ آسمان اور ہے
وہ جس کو دیکھتے ہو تم ضرورتوں کی بات ہے
جو شاعری میں ہے کہیں وہ خُوش بیان اور ہے
جو سائے کی طرح سے ہے وہ سایہ دار بھی تو ہے
مگر ہمیں ملا ہے جو وہ سائبان اور ہے