دشت پر آب ہے کئی دن سے
دل میں سیلاب ہے کئی دن سے
پھر سفینہ مری محبت کا
پیشِ گرداب ہے کئی دن سے
خواب آنکھوں میں تیرتے ہیں مگر
آنکھ بے خواب ہے کئی دن سے
میں بھی کم کم کسی سے ملتا ہوں
وہ بھی کم یاب ہے کئی دن سے
کس کے قدموں کی نرم آہٹ کو
راہ بے تاب ہے کئی دن سے
اک نیا عکس بامِ دل پہ سعید
رشکِ مہتاب ہے کئی دن سے
سعید خان