یوں تو آنکھوں کو ترے خواب کی آزادی ہے
پھر بھی اے جان جہاں عشق میں بربادی ہے
تم خریدارِ محبت ہو مگر وہ پگلی
اپنی مرضی کے پرستان کی شہزادی ہے
روح بےکار ہی دیتی ہے دُہائی ورنہ
دل ہمیشہ سے درِ یار کا فریادی ہے
عشق پر بات ہوئی اُن سے اگرچہ پہروں
پھر بھی لگتا ہے کوئی بات ابھی آدھی ہے
صرف اس شخص کی آہٹ سے مہک جائے گی
آرزوؤں کے مضافات میں جو وادی ہے
آئنہ خوب سمجھتا ہے نقوشِ ہستی
آدمی بھیس بدلنے کا یونہی عادی ہے
منزہ سید