بیمار شخص کا بھی بھلا کیا وجود ہے
ہر وقت کہتا رہتا ہے میرا وجود ہے
ہر شخص کی جو نفی کیے جا رہا ہے تُو
یہ تو بتا کہ بھائی ترا کیا وجود ہے
یعنی تجھے جو منہ نہ لگائے وہ کچھ نہیں
اور منہ لگائے کوئی تو اُس کا وجود ہے
فن کی جو بھیک مانگتے پھرتے ہیں ٹھیک ہیں
اُن کے لیے تو واقعی تیرا وجود ہے
کِھلتے گلاب لہجوں کو سمجھے گا خاک تو
سمجھے گا خاک تُو کہیں اِن کا وجود ہے
تیری سمجھ میں، سوچ میں وُسعت نہیں کوئی
جتنا دماغ ہے ترا اُتنا وجود ہے
جب مجھ پہ وار ہو نہ سکے کارگر ترے
کہتا پِھرا تو سب سے مرا کیا وجود ہے
وہ جو فلک پہ زہرہ ستارہ چمکتا ہے
اُس پر نگاہ کر وہی میرا وجود ہے
ناہید وِرک