ترجیحات
قیام پاکستان سے اب تک حکمرانوں کی ترجیحات قومی دائرے میں نہیں آسکیں۔ وجہ یہ ہے ایک سوچ کے مطابق لوگوں کو اس طرح دبا کر رکھو کہ یہ اپنے مسائل میں ڈوبے رہیں اور اقتدار کی طرف انکی توجہ نہ آسکے دوسری سوچ کہ ایسے کام کئے جائیں کہ کمشن کا انبار ان کے حصے میں آئے عوام مریں یا جئیں اس سے ان کا کوئی عمل دخل نہیں تیسری سوچ کے مطابق اقتدار پر قبضہ کے لئے ہر جائز اور نا جائز طریقہ استعمال کیا جائے۔ سیاست ایسا کاروبار ہے جس میں نقصان ہے ہی نہیں مثلا بیسیوں لوگ میری نظر میں ایسے ہے جو سیاست سے پہلے درمیانے درجے سے تعلق رکھتے تھے اورہمارے حلقہ احباب میں سے ہیں آج کم از کم ارب پتی ہو گئے ہیں۔ تو ایسے کاروبار کو کوئی کیسے خیر آباد کہے گا۔ ہمارے حکمران آج تک پاکستان میں جذبہ قومیت پیدا نہیں کرسکے آج بھی ہم غیر پاکستانی ہیں۔
لیڈر اور سیاستدان میں فرق ہوتا ہے۔سیاست دان پیسے بناتے ہیں اور وہ اس مشن میں سو فیصد کامیاب ہیں۔لیڈر قومیں بناتے ہیں۔لیڈر کی مثال ہمارے آقا محمدﷺ کی ہے۔ مملکت کا سربراہ اور خود کا خزانہ خالی ۔ وصال کے وقت کفن تک کا بندوبست نہیں تھا۔ سپہ سالار تھے لیکن رسولﷺ کی دیوار پرنو تلواریں لٹکی ہوئی تھیں۔ جنگ خندق میں ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ بھوک لگی ہوئی ہے آپﷺنے فرمایا پیٹ پر پتھر باندھ لو اور اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر اسے دکھایا آپﷺ نے دو پتھر باندھے ہوئے تھے۔ خلیفۃ المسلمین عمربن خطابؓسے ایک وفد ملنے آیا انہوں نے کہاں خلیفہ سے ملنا ہے ایک شخض نے بتایا وہ انکا گھر ہے جب وہ گھر کے قریب گے تو تمام دروازے کھلے تھے یعنی ڈیوڑی تھی نہ دربان ہر شخض کو کھلے عام آنے کی اور اپنا مدعا بیان کرنے کی اجازت تھی۔ خلیفہ گھر میں موجود نہ تھے کسی اور سے دریافت کیا تو پتہ چلا کے وہ باغ میں ہیں وفد وہاں پہنچا اور دیکھا کہ وہ ایک درخت کے سائے تلے آرام فرما رہے ہیں جس کا مطلب یہ تھا کہ پوری قوم کو ان پر اعتماد ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔کہ قوم کو ان سے کوئی شکایت نہ ہے کہ ان کا سربراہ اکیلے میں آرام فرما رہے تھے حضرت علیؓ سوکھی روٹی پانی میں ڈبوکرکھا رہے تھے ایک مفلس نے فریاد کی مجھے بھوک لگی ہے فرمایا وہ سامنے گھر میں لنگر تقسیم ہو رہا ہے۔ وہ وہاں گیا اور لنگر کھایا بعد میں تقسیم کار سے درخواست کی کہ مجھے تھوڑا سا لنگر چاہیے وہاں ایک بابا جی سوکھی روٹی پانی میں بھگوکر کھا رہے ہیں انہوں نے فرمایا یہ گھر ان کا ہی ہے میں ان کا بیٹاحسینؓ ہوں اور وہ میرے بابا علیؓ ہیں۔
غریب ِشہر ترستا ہے اک نوالے کو امیر شہرکے کتے بھی راج کرتے ہیں
ایک دفعہ حضرت عمرفاروقؓ کسی کام سے جا رہے تھے۔ ایک سیاح کو پتہ چلا کہ وہ مسلمانوں کے امیر ہیں۔ تو وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا بھا گا بھا گا آپ ؓ کے پاس پہنچااور پوچھا۔آپ مسلمانوں کے امیر ہیں۔ آپ ؓ نے جواب دیا ۔ میں ان کا امیر نہیں بلکہ ان کا محافظ ہوں۔ سیاح نے پوچھا۔ آپ اپنے ساتھ حفاظتی دستہ کیوں نہیں رکھتے۔ آپ نے جواب دیا عوام کا یہ کام نہیں کہ وہ میری حفاظت کریں۔یہ تو میرا کام ہے میں ان کی حفاظت کروں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز عید الفطر سے ایک روز قبل منصب خلافت کی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے کہ بیوی نے آ کر کہا کہ صبح عید ہے اور بچے نئے کپڑوں کی ضد کر رہے ہیں۔ اور گھر میں ان کا کوئی نیا کپڑا نہیں۔ اہلیہ کی بات سن کر ایک پریشانی لاحق ہو گئی بیت المال کے انچارج کو ایک رقعہ لکھا کہ اگر مجھے آئندہ ماہ کی تنخواہ پیشگی دیدیں۔تو میں نہایت ممنون ہو ں گا۔ خازن نے رقعہ کی پشت پر لکھ بھیجا۔ اگر امیر المومنین آئندہ ماہ زندہ رہنے کی ضمانت دے دیں تو میں پیشگی تنخواہ دینے کو تیار ہوں۔ جواب پڑھ کر اہلیہ سے فرمایارقم کا بندوبست نہیں ہو سکا لہٰذا پرانے کپڑوں کو دھو لواور کل بچے وہی دہلے ہوئے کپڑے پہن کر عید کریں گے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے فرمایا جب حکمران اپنی سکیورٹی محسوس کرنے لگیں تو سمجھ لوکے وہ حکمرانی کے قابل نہیں رہے ۔عمرؓ راتوں کو لوگوں کی خبر رکھتے تھے آج ہمارے ہاں لیڈرکوئی نہیں سیاست دان ہیں مسلمانوں میں حکمرانی سپہ سالار کرتے آئے ہیں جمہوریت مغربی طرز حکومت ہے۔ جس کے بارے میں حکیم الامت شاعر مشرق نے فرمایا۔
جمہوریت اک طرزِحکومت ہے کہ جس میں ۔ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
جمہوریت کے ابلیس ہیں ارباب سیاست ۔ اب میری ضرورت نہیں تہہ افلاک
لیڈر عوام۔پبلک اور رعایا کے لئے کام کرتے ہیں۔ سیاستدان اور حکمران اپنے لئے کام کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے دن رات صرف کر دیتے ہیں۔ ان کی ترجیحات مندرجہ بالا سے واضع ہو گئی ہیں۔ اور آج کی ترجیحات کیا ہیں۔ درج ذیل ہیں۔
ہر سال ہمارے ملک کو سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے بڑا جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ہم سیلاب سے متعلق اقدام کا سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔سیلاب کے بعد ہم سوچتے ہیں۔کہ آئندہ لائحہ عمل کیا کرنا چاہئے۔ چند روز کے بعد ہماری ترجیحات پھر وہی۔جیسے تھے۔
میٹرو بس بڑی ضروری ہے مگر اس کے بغیر زندہ رہا جاسکتا تھا اس کی اہمیت سیلاب زدہ علاقوں سے زیادہ نہیں جہاں ہر سال کروڑوں عربوں کا نقصان ہوتا ہے بے شمار انسانی جانیں جاتی ہیں۔ حکمران اور نوکر شاہی پورا ملک لوٹ لوٹ کر کھا رہے ہیں اب ان کو سمجھناچاہیے کہ اہمیت کس کام کو دینی چاہیے ۔ میٹرو بس یا سیلاب زدگان کے جانو مال کی حفاظت کرنا۔بند بنانا اورپانی کا ذخیرہ کرنا فرض اولین ہونا چاہئے۔ ہمارے شہر سیالکوٹ میں 10 منٹ بارش کے بعدآدھاشہر پانی میں ڈوب جاتا ہے مگرہماری توجہ ٹف ٹائل پر ہے۔کیونکہ اگر نالے صاف ہونگے تووہ لوگوں کو نظر نہیں آئیں گے۔ کہ ہم نے کام کیا ہے مگر ٹف ٹائیل نظر آتی ہے لہذا ہم اس کام کو ترجیح دیں گے جس میں کمیشن بھی ہو اورکام بھی نظر آئے۔
سیالکوٹ کا پانی زہرآلودبن چکا ہے آپ سب اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ پانی کا نل کھولوٹب میں پانی بھر دو ایک دو گھنٹے بعد نیچے مٹی کی تہہ نظر آئے گی یہ پانی جانوروں کے استعمال کے قابل نہیں جو ہم پی رہے ہیں شہر میں زیادہ فلٹر نصب نہیں ہم نے اپنے فلٹر کا پانی چیک کروایاہے اس میں لکھا ہے کہ یہ پانی پینے کے قابل نہیں یہ حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ کہ جو مال ہمارے خون پسینے کی کمائی سے اکٹھا ہوتا ہے۔ اس کو مال مفت دل بے رحم کی طرح اڑا دیا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال درج ذیل ہے۔
کچھ عرصہ پہلے پل ایک نیکا پورہ سے چرچ روڈ تک سڑک کے درمیان میں 36 عدد خوبصورت مغلیہ دور ڈیزائن والے کھمبے لگائے گئے۔ ان پر بہت دلکش اور خوبصورت گلوب نصب تھے جو رات کو جلتے تھے۔کتنی افسوس ناک بات ہے کہ ان کھمبوں کو اتارکر ان کی جگہ نئے کھمبے لگانے کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ بالکل صحیح کھمبے اور گلاب نیلام ہوئے یا نواز دئے گئے۔ اور نئے ٹھیکے میں کس کو نوازہ گیا۔ پرانے کھمبوں کی بنیادوں کو بھی نیست و نابود کیا جا رہا ہے۔ اور نئی بنیادوں پر نئے کھمبے لگائے جا رہے ہیں۔میرے خیال میں اس کی قطعی کوئی ضرورت نہ تھی۔ خدارا خوش کے ناخن لو اور اس غریب عوام کے خون پسینے کے مال کو بے دردی سے مت لٹاؤ۔
اہل اقتدار کے سوچنے کی بات ہے۔ ضرورت صاف پانی کی ہے کہ ٹف ٹائیل کی۔ کھمبوں کی تبدیلی کی ہے یا نکاس کی۔ میٹرو بس کی ہے یا دریاوٗں پر بند تعمیر کرنے اور پانی ذخیرہ کرنے کی۔
عابد خان لودھی