- Advertisement -

تجھ کنے بیٹھے گھٹا جاتا ہے جی

میر تقی میر کی ایک غزل

تجھ کنے بیٹھے گھٹا جاتا ہے جی
کاہشیں کیا کیا اٹھا جاتا ہے جی

یوں تو مردے سے پڑے رہتے ہیں ہم
پر وہ آتا ہے تو آجاتا ہے جی

ہائے اس کے شربتی لب سے جدا
کچھ بتاشا سا گھلا جاتا ہے جی

اب کے اس کی راہ میں جو ہو سو ہو
یا دب ہی آتا ہے یا جاتا ہے جی

کیا کہیں تم سے کہ اس شعلے بغیر
جی ہمارا کچھ جلا جاتا ہے جی

عشق آدم میں نہیں کچھ چھوڑتا
ہولے ہولے کوئی کھا جاتا ہے جی

اٹھ چلے پر اس کے غش کرتے ہیں ہم
یعنی ساتھ اس کے چلا جاتا ہے جی

آ نہیں پھرتا وہ مرتے وقت بھی
حیف ہے اس میں رہا جاتا ہے جی

رکھتے تھے کیا کیا بنائیں پیشتر
سو تو اب آپھی ڈھہا جاتا ہے جی

آسماں شاید ورے کچھ آگیا
رات سے کیا کیا رکا جاتا ہے جی

کاشکے برقع رہے اس رخ پہ میر
منھ کھلے اس کے چھپا جاتا ہے جی

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل