- Advertisement -

خوب، روپ اور بہروپ

ایک اردو افسانہ از معطر عقیل

جون کا مہینہ ہو، کراچی کی گرمی ہو اور سورج آنکھیں نہ دکھائے اب یہ تو ہو نہیں سکتا۔ تو بس اس دن بھی سورج کی تپش ہر شے کو جھلسا رہی تھی۔۔چلچلاتی دھوپ اور ساتھ چلنے والی خشک مگر گرم ہوا ہر ذی نفس کو بے چین کیے دے رہی تھی۔ لوگ گرمی کی شدت سے اپنے اپنے گھروں میں محصور ہونے کو ترجیح دے رہے تھے بجز ان لوگوں کے جن کو فکر معاش نے اس گرمی کی شدت کو بھی جھیلنے پر مجبور کیا ہوا تھا۔ متوسط طبقے کے رہائشی کراچی کے اس علاقے کے لوگوں کے لیے جگہ جگہ لگے پرانے نیم کے درخت قدرتی اے سی کا مزا دیتے تھے۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ سالوں پرانے یہ درخت اب تک کسی ترقیاتی منصوبے کی نذر نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے اکثر گرمی سے ستاۓ ہوے لوگ شام ہوتے ہی تھوڑا سکھ کا سانس لیتے، بچے بوڑھے گھروں سے نکل کر گلیوں میں آجاتے ہیں اور پھر رات دیر تک نیم کے ان درختوں کے نیچے محفل سجی رہتی۔
ایسے سخت موسم میں اپنے آنگن میں لگے نیم کے درخت کے نیچے دنیا و مافیہا سے بےخبر فروا جو کالج کے آخری سال میں تھی اپنے آخری پرچے کی تیاری میں مگن تھی۔
اچانک اس کی نظر اپنے موبائل پر پڑی اس کی لائٹ جل رہی تھی اس کی دوست شانزے کا نام اور تصویر اسکرین پر جگمگا رہے تھے۔ جب تک وہ کال ریسیو کرتی فون کی اسکرین تاریک ہو چکی تھی۔
فون چیک کرنے پر اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔
اوہ نو شانزے کی اتنی ساری کالز موبائل ایک بار پھر وائیبریٹ ہونے لگا۔
جلدی سے اس نے کال اٹھائی تو شانزے جیسے بھری بیٹھی تھی۔
فروا آخر کہاں تھیں تم یار
لگتا ہے موبائل پھر سائیلینٹ پر کردیا تم نے۔
ہاں یار تمہیں معلوم تو ہے جب کسی مشکل سوال کے جواب کا رٹا مارنا ہوتا ہے تو پھر میں کہیں نہیں دیکھتی۔ اسکرین بھی نہیں
فروا نے ہنستے ہوئے وضاحت دی۔
اچھا ٹھیک ہے معلوم ہے مجھے تمہاری پرانی عادت۔۔بس یار مجھ سے یہ دو سوال نہیں ہورہے یاد یقیناً تم نے تو کرلئے ہونگے۔ بس میں یہ کہہ رہی تھی کہ اگر یہ سوال آ گئے تو پھر تم ہی میری مدد کروگی۔
شانزے قہقہہ لگاتے ہوئے بولی۔
اچھا اچھا شانزے سانس تو لے لو یار جو حکم دوست کا۔ تم بے فکر رہو موقع ملتے ہی میں تمھاری ضرور مدد ضرور کرونگی۔
فروا شانزے کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔شانزے نے زور سے قہقہہ لگایا بس اللہ کے بعد ایک تم ہی تو سہارا ہو فروا تم نہ ہوتی تو مجھ ڈفر کا کیا ہوتا۔
فروا کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اچھا اچھا ڈرامے بند کرو اور جاکر سوجاؤ مجھ سے بھی اچھا پرچہ تمھارا ہوگا معلوم ہے مجھے۔
ان شاءاللہ ہم دونوں کا ہوگا بیسٹ آف لک۔
شانزے نے کہا،چلو خدا کی امان میں رہو۔ صبح ملتے ہیں۔
یا اللہ دو بج رہے ہیں فروا بڑبڑاتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔۔اور پھر نیند سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ تہجد کی نماز ادا کر کے بستر پر آ کر لیٹی تو نیند اس کی آنکھوں کوسوں دور تھی۔ کچھ دیر کروٹیں بدلنے کے بعد بھی جب نخند نہیں آتی تو
وہ سوچتی ہے کہ کچھ دیر صحن میں ٹہل لیا جائے تاکہ طبیعت بشاش ہو جائے اور نیند بھی آجائے۔
یا اللہ سائیں! آپ کو تو پتہ ہے میں کتنا خوش ہوں کل میرا آخری پرچہ ہے۔ آپ تو سب جانتے ہیں میں کتنی محنت کررہی ہوں یا اللہ سائیں!میرا خواب پورا ہونے کو ہے میں وقت ضائع کئے بغیر کل ہی MCAT کی تیاری کے لیے داخلہ لے لونگی۔۔ہائے میں ڈاکٹر بن کر لوگوں کا فری علاج کیا کرونگی بس کجھ ہی دن اور ہیں اللہ سائیں آپ کا شکریہ!
صحن میں نیم کے درخت کے نیچے ٹہلتے ہوئے وہ مسلسل اللہ سے دعا کر رہی تھی اور پھر دعا کرتے ہوئے ہی وہ اندر کمرے میں واپس آگئی۔
میری آگے کی منزل آسانی سے پار کروا دیجیے گا۔
یا اللہ سائیں۔۔اور پھر اللہ سے باتیں کرتے کرتے نہ جانے کب وہ نیند کی وادی میں پہنچ گئی۔
چلو فروا جلدی سے اٹھ جاؤ نماز پڑھو فجر کا وقت نکلا جارہا ہے فروا کی امی فروا کو حسب معمول آواز لگا کر خود نماز پڑھنے کھڑی ہوجاتی ہیں۔
فروا بیٹا ناشتہ تیار ہے جلدی سے آ کر ناشتہ کرلو۔ دو تین بار کہنے پر بھی جب فروا کا کوئی جواب نہ آیا تو انہوں نے کچن میں ہی کام کرتے ہوئے بڑبڑانا شروع کر دیا
۔۔ یہ لڑکی بھی نہ پڑھنے میں اتنی مگن ہوجاتی ہے اس کو کچھ سنائی نہیں دیتا اللہ میری بیٹی کو کامیاب کرے وہ دل ہی دل میں فروا کے لیے دعائیں کرتی ہوئی ناشتہ لیکر فروا کے کمرے میں داخل ہوئیں تو حیران رہ گئیں۔
ارے!یہ کیا فروا بیٹا تم ابھی تک سورہی ہو۔
فروا بیٹا!کیا ہو گیا ہے ۔دیکھو پرچے کا وقت نکل جائیگا اب آٹھ جاؤ جلدی سے رات دیر گئے تک پڑھتی رہی ہو اب دیکھو اٹھ نہیں پا رہی ہو۔ کہا بھی تھا جلدی سو جانا۔ وہ نزدیک جاکر فروا کو زور زور سے ہلا کر اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن جب اتنا ہلانے پر بھی فروا ٹس سے مس نہ ہوئی تو پھر انہیں کسی گڑبڑ کا احساس ہوا۔
فروا! فروا!میری جان!آنکھیں کھولو,کیا ہوا ہے؟ کیوں نہیں اٹھ رہی ہو،وہ ہذیانی انداز میں زور زور سے چلانے لگتی ہیں۔
ان کی یہ آوازیں سن کر برابر والے کمرے میں موجود اور آفس کی تیاری میں مصروف فروا کے پاپا بھی تیزی سے فروا کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔
فروا کی امی بدستور فروا کو جھنجھوڑ کر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
یہ ساری صورتحال دیکھ کر انہوں نے فروا کی امی سے پوچھا۔
کیا ہوا شبانہ ؟
دیکھیں۔دیکھیں نا۔ یہ اپنی فروا کو کیا ہوا ہے۔۔پیپر ہے اس کا اور یہ اپنی آنکھیں ہی نہیں کھول رہی ہے فروا ایسے بھی کوئی سوتا ہے۔
پتا نہیں کیا ہوگیا ہے میری بچی کو۔
اچھا ہٹو تم،میں دیکھتا ہوں ،پریشان نہ ہو۔اللہ خیر کرے گا ان شا اللہ۔
وہ جلدی سے فروا کی نبض چیک کرتے ہیں جو کہ نسبتا آہستہ چل رہی تھی۔
شکر الحمدللہ!تم پریشان نہیں ہو فروا کو کچھ نہیں ہوگا۔ فروا کے پاپا برابر والے گھر میں رہائش پذیر فروا کے چھوٹے ماموں حمید کو بلانے کے لیے دوڑتے ہیں وہ گھبراہٹ میں بیل پر بیل بجاتے ہیں۔ گیٹ کھلتا ہے اور فروا کے ماموں تسبیح گھماتے ہوئے باہر نکلتے ہیں۔ اپنے بہنوئی کو اس طرح پریشان دیکھ کر پوچھتے ہیں۔
کیا ہوا بشارت بھائی؟آپ اس وقت,اس طرح؟ سب خیریت تو ہے؟
حمید بھائی فروا انکھیں نہیں کھول رہی۔ میں نے نبض چیک کی ہے مجھے لگتا ہے بی پی لو ہوگیا ہے۔ فورا ہسپتال لےجانا ہوگا۔حمید ماما یہ سن کر پریشان ہوجاتے ہیں اور اپنے بیٹے عمران کو فروا کی کیفیت بتاتے ہوئے اس کو گاڑی نکالنے کا کہتے ہیں۔
صبح صبح گیٹ پر اتنی آوازیں سن کر فروا کی مامی اور کزن بھی بایر آ جاتے ہیں اور پھر فروا کی امی اور حمید ماموں کی منجھلی بیٹی ہما فروا کو گود میں اٹھا کر گاڑی میں لٹاتے ہیں.
عمران بھائی نے تیزی سے گاڑی نکالی اور فل اسپیڈ میں بھگاتے ہوئے سیدھاعباسی ہسپتال پہنچے اور ایمرجنسی پر گاڑی روکی۔ایمرجنسی کے باہر موجود طبی عملے نے فوری طور پر فروا کو اسٹریچر ڈال کر اندر ایمرجنسی میں پہنچایا۔ ہما آپی نے وہاں موجود ڈاکٹروں کو ساری صورت حال بتائی جس کے بعد ڈاکٹروں نے فروا کو فوری طبی امداد دینا شروع کی جس میں انہیں جلد ہی کامیابی حاصل ہوئی اور بالآخر تھوڑی ہی دیر بعد وہ اپنی آنکھیں کھول دیتی ہے۔
جی بیٹا۔ کیسا محسوس کر رہی ہیں آپ ؟
کیا ہوا تھا آپ کو کچھ یاد ہے؟
ڈاکٹر نے فروا کو ہوش میں آتے دیکھ کر پوچھا۔
فروا نے کچھ بولنے کہ کوشش کی مگر اس کی آواز جیسے اس کے حلق میں ہی پھنس کر رہ گئی تھی۔ یہ سب دیکھ کر ڈاکٹر نے اسے ہاتھ کے اشارے سے آنکھیں بند کر کے مزید کچھ دیر آرام کرنے کا کہا۔
حمید ماما فروا کا ہاتھ پکڑ کر تسلی دیتے ہیں۔
فروا بیٹا ڈرنے والی کوئی بات نہیں ہے۔ میں تمھارے ساتھ ہوں۔ تمہارے مما پپا سب ادھر ہیں۔ تم ٹھیک ہو ۔۔پریشان مت ہونا۔
فروا نم آنکھوں سے کبھی ماموں کو دیکھتی تو کبھی اپنی ماں کو دیکھتی۔
نقاہت سے اس سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔ اور اسکی گھبراہٹ تھی کہ مسلسل بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
ڈاکٹرز مسلسل فروا کا معائنہ کررہے تھے لیکن وہ فروا کی یہ حالت کیوں کر ہوئی سمجھنے سے قاصر تھے۔ گزشتہ دو گھنٹوں میں تقریبا سارے ہی ایمرجنسی ٹیسٹ کئے جا چکے تھے اور حیرت انگیز طور پر اس کی ساری رپورٹس نارمل آئی تھیں۔
ڈرپس وغیرہ لگنے کے بعد بتدریج فروا کی حالت میں کچھ بہتری آتی ہے تو فروا اپنے دوسرے ماموں سے بات کرنے کے لیے ضد کرتی ہے۔
فروا بیٹا ماموں ابھی کچھ دیر میں خود یہاں آنے والے ہیں ان کو تمہاری یہاں ایمرجنسی میں موجودگی کی اطلاع دی جا چکی ہے فون کرنے پر وہ پریشان نہ ہو جائیں۔ پاپا سمجھانے والے انداز میں فروا کو کہتے ہیں۔ مگر فروا بضد رہتی ہے کہ آپ مجھے موبائل دیں مجھے ان سے ہر حال میں بات کرنی ہے.
کال ملنے پر فروا جب حبیب ماموں سے بات کرتی ہے تو اس کے بات کرنے کے انداز اور کچھ جملوں سے وہ فورا سمجھ جاتے ہیں کہ کچھ غیر معمولی بات ہوئی ہے۔
وہ فروا کو سمجھاتے ہیں مگر فروا جب یہ کہتی ہے کہ
حبیب ماموں یہ سب لوگ ہمیں تنگ کررہے ہیں اور نہ جانے کیوں ہسپتال لے آئے ہیں ہمیں اپنے گھر جانا ہے۔۔۔بہت سے کام ہیں جو نمٹانا ہے۔ ادھر ہمارے کچھ خاص مہمان آئے ہوئے ہیں۔ نہ جانے وہ کیا سوچیں گے کہ فروا انہیں ایسے ہی چھوڑ کر چلی آئی تو وہ مشکوک ہو جاتے ہیں اور ان کی چھٹی حس انہیں کسی غیر معمولی گڑ بڑ کا احساس دلاتی ہے۔
کچھ سمجھتے اور نہ سمجھتے ہوئے انہوں نے فروا کو تسلی دی اور کہا
بیٹا تم پریشان نہ ہو بس میں راستے میں ہوں میں پہنچ رہا ہوں۔پھر ہم گھر چلیں گے تاکہ تمہارے مہمانوں کے طعام کا انتظام کیا جا سکے۔
بس ابھی تم حمید ماموں سے میری بات کروا دو میں انہیں کہتا ہوں فورا سے فروا کو ڈسچارج کروائیں۔
فروا فون حمید ماما کو دیتی ہے۔
حبیب ماموں نہ جانے حمید ماموں سے ایسی کیا بات کرتے ہیں کہ وہ کچھ پریشان سے ہو جاتے ہیں۔ اور فروا کے والد اور والدہ کو کونے میں لے جا کر ان سے کافی دیر تک کچھ بات کرتے رہتے ہیں۔ فروا کی والدہ تو دوپٹہ منہ پر رکھ کر اپنی سسکیاں روکنے کی کوشش کر رہی تھیں جبکہ فروا کے والد کے چہرے پر کبھی ایک رنگ آتا تو کبھی دوسرا۔
تھوڑی سی دیر میں ان کے اطراف کا ماحول کچھ پراسرار سا ہو گیا تھا مگر فروا اس سب سے بے خبر ایمرجنسی کی چھت پر لگے گول گول گھومتے پنکھے کو دیکھ رہی تھی اور اسی طرح اپنے ہونٹ بھی گولائی میں سکیڑ رہی تھی۔
تھوڑی دیر میں ہی وہ لوگ ڈاکٹروں سے بات کر کے فروا کو اپنی ذمہ داری پر ڈسچارج کروا کے گھر واپس لے آتے ہیں۔
اس سب معاملے میں صبح سے شام ہوجاتی ہے۔۔
فروا کچھ تو کھا لو بیٹا۔صبح سے ایک لقمہ تمہارے حلق سے نہیں اترا
فروا کی امی نے کھانے کا نوالہ اس کے منہ کی طرف لے جانا چاہا مگر فروا نے ان کا ہاتھ پیچھ کر دیا اور یہ کہتے ہوئے منہ پھیر کر لیٹ گئی کہ امی میرا پیٹ بھرا ہوا ہے۔ میں نے ابھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھا لیا ہے۔
فروا کی امی حیرت سے فروا کو دیکھتی ہیں وہ تھوڑی تھوڑی دیر سے جیسے کچھ چبا رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کافی دیر سے کچھ کھا پی رہی ہے۔
شام میں فروا کی خالہ بھی فروا کو دیکھنے آتی ہیں اور کافی دیر تک فروا کے ساتھ بیٹھ کر فروا سے باتیں کرتی رہتی ہیں تاکہ اس کا دل بہلے۔
وہ پنج وقتہ نمازی اور جید عالمہ تھیں۔فروا سے باتیں کرتے ہوئے وہ مسلسل قرآن مجید کی آیات پڑھ پڑھ کر اس پر دم کرتی جا رہی تھیں۔
فروا تم نے آج صبح سےکچھ بھی نہیں کھایا کچھ تو کھا لو۔ اس طرح تو تمہیں کمزوری ہو جائے گی۔ کیا واقعی تمھیں بھوک نہیں لگ رہی؟
فروا کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے وہ بڑے پیار سے اس سے پوچھتی ہیں۔
خالہ جانی مجھے واقعی بھوک نہیں ہے۔ میرا پیٹ بھرا ہوا ہے۔
اچھا کچھ نہیں کھا کر پیٹ کیسے بھرا ہوا ہو سکتا ہے؟
خالہ نے اس کا سر سہلاتے ہوئے پوچھا۔
فروا نے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کوئی اور تو نہیں سن رہا اور سرگوشی سے بولی آپ پہلے وعدہ کریں کسی کو بتائیں گی تو نہیں نا؟
نہیں میری جان میں کسی کو کچھ نہیں بتاوں گی۔ اب بتاو کیا بات ہے؟
خالہ نے اس کو یقین دلایا۔
دراصل وہ میری دوست ہے نا سیدہ!
فروا اٹکتے ہوئے بولی۔
ہاں ہاں بیٹا بولو!
وہ میری دوست ہے نا وہ میرے ساتھ ہے۔
وہ مجھے باغ میں لے جاکر میٹھے میٹھے پھل کھلاتی ہے۔ جو بہت مزیدار ہوتے ہیں۔وہ میری پکی والی دوست بن گئی ہے اور پتہ ہے وہ کہہ رہی تھی کہ تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو میں تمہیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاوں گی۔
فروا سرگوشی میں ساری بات خالہ کو بتاتی ہے۔
خالہ کے چہرے پر تشویش کے آثار نمودار ہو جاتے ہیں مگر وہ فروا پر کچھ ظاہر نہیں کرتی ہیں اور اس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتی ہیں تاکہ وہ اپنی بات جاری رکھے۔
اچھا خالہ میں سیدہ کے ساتھ کھیل کھیل کر تھک گئی ہوں اب میں سو رہی ہوں اور پھر وہ کروٹ لے کر ایک لمحے میں سوجاتی ہے جیسے واقعی بہت تھک گئی ہو۔
فروا کی خالہ کو اس گفتگو سے بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔
رات میں حبیب ماموں اپنی فیملی کے ساتھ فروا کے گھر آتے ہیں ان کی بڑی بیٹی مونا ایک بہت اچھی ڈاکٹر تھی۔ وہ فروا کے پاس آکر بیٹھ جاتی ہے اور اس کا سر سہلاتی ہے۔
فروا کی خالہ نے گھر واپس جانے سے پہلے فروا سے ہونے والی تمام گفتگو فروا کی ماں کو بتا دی تھی لہذا فروا کی ماں اپنے بھائی کو تمام صورت حال سے آگاہ کرتی ہیں اور رونے لگتی ہیں۔
مغرب کے بعد سے اس کو جھٹکے پڑ رہے ہیں۔۔ پتہ نہیں کس غہر مرئی چیز کو دیکھ رہخ ہے اور باتیں کر رہی ہے مستقل کچھ کھا رہی ہے جبکہ ہمارا کھانا ویسے کا ویسا ہی رکھا ہوا ہے۔
حبیب ماموں سمیت سب گھر والوں کو اب تک اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ فروا کسی چھٹپٹے کے اثر میں آ گئی تھی۔ اور اس کا روحانی علاج ہونا چاہیے۔
ابھی وہ سب یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ فروا کو پھر سے وہی جھٹکے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔
مونا کہتی ہے بابا میں نے آج تک کسی مریض کو ایسے جھٹکے لیتے نہیں دیکھا۔
اتنی دیر میں حمید ماموں بھی آجاتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان کی آواز سن کر فروا اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے اور اپنے دونوں مامووں کو ساتھ دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتی ہے۔
حمید ماموں فروا سے باتیں کرتے ہیں اور حبیب ماموں اس کی ان مبہم باتوں کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔
اچانک حبیب ماموں کہتے ہیں آؤ آج ہم سب فروا کی دعوت کرتے ہیں۔ بتاؤ فروا کیا کھاؤ گی؟
فروا بریانی اور کیک کھانے کی فرمائش کرتی ہے۔ حبیب ماموں فروا کے لیے عمران بھائی سے کہہ کر بریانی اور کیک منگواتے ہیں۔ فروا پوری بریانی خود کھا لیتی ہے۔
ارے بیٹا مونا تم بھی کھاو نا ہاسپٹل سے سیدھی ادھر آ گئی ہو کچھ کھایا پیا بھی نہیں۔
فروا کی ماں مونا کو کیک کا پیس دیتی ہیں تو فروا غصہ میں آکر پلیٹ میں رکھا سارا کیک پھینک دیتی ہے۔یہ سارے منظر دونوں ماموں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ آپس میں بات کرتے ہیں کہ کیوں نہ اس کا روحانی علاج شروع کیا جائے اور کسی بزرگ کو دکھایا جائے۔
دوسرے دن حبیب ماموں اپنے ساتھ ایک بزرگ شخصیت کو لاتے ہیں۔
نورانی چہرے والے بزرگ اطمینان اور مسکراہٹ کر ساتھ کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ رعب دار آواز میں سلام کرتے ہیں اور بلند آواز میں ازان کہتے ہیں اور شہادت کی انگلی سے حصار باندھتے ہیں.فروا اپنی ماں اور پاپا کو بلاتی ہے کہ میری پاس آ جائیں۔ لیکن حبیب ماموں موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ان کو اشارے سے منع کردیتے ہیں۔
حمید ماموں فروا کو کہتے ہیں میں تمھارے ساتھ ہوں,کچھ نہیں ہوگا گھبراؤ نہیں۔
بزرگ فروا سے اس کا نام پوچھتے ہیں تو فروا ان کو نام بتانے کے بجائے ٹالنے لگ جاتی ہے۔۔ اور ان کو اپنے نانا اور ان کے بزرگوں کے بارے میں بتانے لگ جاتی ہے۔ وہ وہاں بیٹھے سب لوگوں کو چکمہ دینے کی کوشش کرتی ہے بزرگ کہتے ہیں میں تعویذ دے رہا ہوں اور دم کیا ہوا پانی۔
آپ اس کو پہنادیں,فروا تعویذ پہنے سے انکار کردیتی ہے لیکن جب اس کے ماموں پیار سے سمجھاتے ہیں تو وہ ان کا دل رکھنے کے لیے پہن لیتی ہے۔۔۔ اس کے بعد فروا پوری رات بےچین رہتی ہے۔۔۔ فروا کی خالہ دم کرتی رہتی ہیں۔ ماموں پاپا عمران بھائی اور فروا کی ماں فروا کی طرف سے غفلت نہیں برتتے۔ وہ سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتے ہیں کہ کہیں وہ خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے.
فروا ہر طرح سے سب کو پریشان کرتی ہے ۔ جب سے وہ تعویذ پہنتی ہے اس کو سب اپنے دشمن لگنے لگ جاتے ہیں۔۔ وہ اپنے حمید ماموں کو گھر میں نہیں آنے دیتی ہے۔ پھر رات کو کسی پہر اسے موقع ملتا ہے تو فروا وہ تعویذ کھینچ کر نکالتی ہے اور اس کو بیت الخلا میں پھینک دیتی ہے۔
فروا کی حالت مستقل بگڑتی جا رہی تھی۔ فروا کی یہ حالت دیکھ کر اس کی ماں بہت پریشان ہو جاتی ہیں لیکن وہ ہمت سے کام لیتی ہیں۔ فروا کی۔خالہ بھی ان کو ان کو تسلی دیتی ہیں کہ فروا جلد اپنے ہوش میں آجائے گی اور نارمل ہوجائے گی۔
دوسرے دن وہ بزرگ پھر آتے ہیں فروا ان کو دیکھ کر غصہ کرنے لگتی ہے اور چیخنا چلانا شروع کر دیتی ہے ۔وہ بلند آواز سے سورہ جن کی تلاوت کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں بتاؤ تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو؟ اس بچی کو کیوں پکڑ رکھا ہے اس کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ رہی ہو؟پہلے تو وہ چپ رہتی ہے مگر جب بزرگ اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کی قسم دیتے ہیں تو فروا بولنا شروع کر دیتی ہے ۔۔اب آہستہ آہستہ اس کی آواز بھی بدل جاتی ہے۔
وہ کہتی ہے۔
میں فروا نہیں ہوں، سیدہ ہوں، میں مسلمان ہوں، اور شاہ بچاری کی مرید ہوں۔ میرے والدین نہیں ہیں۔میں بہت اکیلا محسوس کرتی تھی۔ مجھے ایک دوست کی ضرورت تھی۔ یہ نیم کے درخت کے نیچے دوپٹہ پہنے باحیا بیٹھی ہوئی تھی مجھے اس کی معصومیت اور مسکراہٹ اچھی لگی تو میں جب سے اس کے ساتھ ہوں اب یہ بس میری دوست رہے گی اور کوئی مجھے اس سے کوئی بھی الگ نہیں کرسکتا۔
بزرگ نے کہا تم اس بچی کو چھوڑ دو ورنہ میں تمھیں جلا دونگا۔ یہ کہ کر وہ سورتیں پڑھ کر اس پر پانی کی چھینٹیں مارتے ہیں تو وہ تڑپ سی جاتی۔
اس نے وعدہ کیا کہ میں رات ہوتے ہی چلی جاؤں گی۔ بزرگ نے اس کو مہلت دی لیکن رات ہوئی تو فروا کی حالت اچانک بگڑنے لگ گئی گھر میں توڑ پھوڑ ہونے لگ گئی۔ فروا کی۔الماری میں رکھے کپڑوں میں خودبخود آگ لگ گئی۔ یہ سب دیکھ کر سب پریشان ہوگئے کہ فروا کی جان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔حبیب ماموں نے فوراً اپنے بیٹے ممتاز کو سعودیہ کال کی اور اس کو ساری صورت حال بتائی۔ ممتاز حافظ قرآن تھا اور ان سب چیزوں کا علم بھی رکھتا تھا اس نے اپنے استاد محترم جو کہ جنات اور آسیب کا توڑ کرتے تھے ان کو تمام معاملات سے آگاہ کیا۔انھوں نے فون کے ذریعے اس سیدہ کو فروا کے اندر سے جانے کو کہا لیکن وہ نہیں مانی۔۔وہ مسلسل تین گھنٹے تک عمل کرتے رہے۔
اور اپنے عمل سے سیدہ کو جلا دیا۔۔ وہ شام فروا کے لیے بہت پریشان کن تھی فروا بار بار کہتی تھی میری دوست کو جلا دیا، میری دوست کو جلا دیا۔ اپ۔لوگ کتنے ظالم ہیں۔ لتنی اچھی تھی میری دوست اور پھر یہی کہتے کہتے وہ بے ہوش ہوگئ۔۔۔۔سیدہ کے اس طرح جل جانے کا اثر فروا کے دماغ پر ہوا اور وہ اپنی یاداشت کھو بیٹھی۔ تعلیمی سرگرمیوں سے بھی محروم ہو گئی اور وہ دماغی طور پر کسی اہل نہ رہی اور اپنی عمر سے کئ سال پیچھے چلی گئی جس کی وجہ سے اس کا شمار بچوں میں ہونے لگا مگر زندگی نئے سرے سے ترتیب کی گئی۔
فروا رشتوں کے معاملے میں خوش قسمت تھی۔۔ اس کو آگے بڑھانے میں اس کے خاندان کے ہر فرد نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ فروا کی خالہ مستقل طور پر فروا کے ساتھ رہنے لگیں ۔۔قرآن شریف کے ذریعے فروا کی ذہنی نشوونما کی گئی۔ قرآن مجید کے نور نے فروا کے ذہن کو پھر سے معطر کیا۔
پھر اس اک نئی صبح کی اک کرن نے ماضی کے دریچوں کو کھولا جس میں فروا کا وہی پرانا سوال مما آج تو میرا پیپر ہے مجھے وقت سے پہلے پہنچنا ہے اور اس کی آنکھوں میں وہی چمک اور وہی جذبہ جوش و خروش نظر آیا۔
یہ سنتے ہی فروا کی ماں کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور انہیں سال بھر پہلے کی وہ منحوس صبح یاد آگئی۔ انہوں نے فروا کو گلے لگایا اور اس کو جھوٹی تسلی دی کہ آج شہر کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے سے پرچہ ملتوی ہو گیا ہے فروا کو اس جواب سے تسلی نہیں ہوتی اور وہ اسی سوچ میں ذہن میں کئی سوالات لے کر بھی خاموش رہتی ہے اس کے چہرے سے بے چینی عیاں ہو رہی تھی۔
کچھ دن بعد شام کے وقت فروا کی دوست شانزے اس اطمینان کے ساتھ کہ اب فروا بالکل ٹھیک ہے فروا سے ملنے اس کے گھر آتی ہے۔ شانزے فروا کو دیکھ کر اپنے آنسو روک نہیں پاتی اور اس کے گلے لگ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتی ہے کیونکہ رنگوں سے کھیلنے والی فروا اس کو بے رنگ سی نظر آرہی تھی۔ اس کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔ نہ ہی اس کی آنکھوں میں وہ پہلی سی چمک تھی اور نہ ہی تازگی تھی۔
فروا حیران اور پریشان ہو کر بے ساختگی سے پوچھتی ہے شانزے سب خیریت ہے نا یار ۔۔۔تم تو ایسے رو رہی ہو جیسے سالوں سے بچھڑے ہوئے ہیں ایک دن میں ایسا کیا ہوا؟
اس بات پر شانزے جذبات پہ قابو نہ رکھتے ہوئے فروا کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ سے پکڑ کر نہایت اطمینان سے کہتی ہے۔
شکر ہے اس مالک کا میری دوست سب کی دعاؤں سے تم واپس ہمارے پاس لوٹ آئی جسے تم ایک دن کہہ رہی ہوں وہ 365 دن کا طویل سفر ہے جس کی اذیت اور جدائی سے تم ناواقف ہو۔ یہ سب سن کر فروا ہکا بکا رہ جاتی ہے اور اس کے اندر تجسس بڑھ جاتا ہے کہ ایسا کیا ہوا۔
اس کا زرد چہرہ دیکھ کر شانزے بوکھلا جاتی ہے ۔
ابھی یہ دوستیں باتیں کر رہی ہوتی ہیں کہ اچانک سے روم کا دروازہ کھلتا ہے اور وہ دونوں چونک جاتی ہیں اور دروازے کی طرف دیکھتی ہیں۔
یہ لو بچوں ٹھنڈا ٹھنڈا شربت۔
شانزے کے امی ہاتھ میں شربت کی ٹرے تھامے ہوئے کہتی ہیں۔
شانزے شربت پیتے ہوئے دل میں ٹھان لیتی ہے کہ میں دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے فروا کو حقیقت سے آگاہ کروں گی اور اس کے ذہن میں جتنے ڈگمگاتے ہوئے سوالات ہیں ان کے جواب دے کر اپنی دوست فروا کی بے چینی کو ختم کروں گی۔
شانزے! یار پلیز اپنی اس خاموشی کو ختم کرو۔ میری اس الجھن کو سلجھاؤ اور مجھے حقیقت سے آگاہ کرو اگر واقعی تم میری سچی دوست ہو۔
اس کی امی کے جانے کے بعد فروا شانزے کو مخاطب کر کے بڑے مان کے ساتھ کہتی ہے۔
آخر یہ ایک دن سے 365 دن کا سفر کیا ہے؟کیسا تھا؟ اور کیا ہوا؟ سب سے آگاہ کرو.
میری دوست آج میں تمہیں سب حقیقت سے آگاہ کروں گی لیکن تم وعدہ کرو تم اپنے گزرے ہوئے وقت پر ماتم کرنے کی بجائے اپنے آنے والے مستقبل کا روشن ستارہ بنوگی ۔
شانزے فروا کو گلے لگا کر کہتی ہے۔
وہ رنگ رنگ جو مانند پڑ گئے ہیں ان رنگوں میں رنگ کر تم دوبارہ سے جگمگاؤ گی۔
پھر شانزے فروا کو تمام حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ کس طرح اس کے خواب چکنا چور ہوۓ۔
فروا حقیقت جان کر کچھ دیر کے لیے گم سم سی ہو جاتی ہے اور پھر بے اختیار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے شانزے فروا کی یہ حالت دیکھ کمرے سے باہر بھاگتی ہے اور فروا کی امی کو آواز دیتی ہے۔
آنٹی آنٹی کدھر ہیں آپ؟
جلدی آئیں۔۔ فروا کو دیکھیں کیا ہو رہا ہے۔
فروا کی امی پریشان ہو کر جلدی سے آتی ہیں اور فروا کو روتا دیکھ کر سینے سے لگا لیتی ہیں۔
ماں میرے سب خواب ٹوٹ گئے۔ میرے خوابوں کی تعبیر مجھے کبھی نہیں ملے گی میں ڈاکٹر اب نہیں بن سکتی۔
فروا پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے ماں سے کہتی ہے۔
نہیں فروا۔۔۔۔میری جان ۔۔میری بیٹی ناکام ہو ہی نہیں سکتی۔ دیکھنا ایک دن تم پھر سے اپنے پیروں پر کھڑی ہو گی۔ہم تمہارے ساتھ ہیں۔میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں ۔
فروا کی امی اسے تسلی دیتے ہوئے کہتی ہیں۔
اسی اثناء میں حمید ماموں ہاتھ میں کچھ پیپرز لیے ہوئے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور فروا کی طرف بڑھا کر کہتے ہیں تمہارے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے نئے سال اور نئے سفر کا تحفہ۔
فروا جب اس لفافے کو کھولتی ہے تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی کیونکہ اس میں کمبائنڈ انٹر کے ایڈمیشن فارم ہوتے ہیں لیکن اس کی نظر جب گروپ پر پڑتی ہے تو پھر سے مایوس ہو کر سوالیہ نظروں سے ماموں کی طرف دیکھتی ہے۔
ضروری نہیں میڈیکل کی فیلڈ میں رہ کر ہی ڈاکٹر بنو تم میری طرح ایچ ڈی کر کے ڈاکٹر بننے کا اپنا برسوں پرانا خواب پورا کر سکتی ہو۔
یہ سن کر فروا کی آنکھوں میں ایک چمک اور نئی امید پیدا ہو جاتی ہے اور وہ مسکرانے لگتی ہے۔
نئے سال کی پہلی صبح کے سورج کی چمک کے اجالے اس کو روشن کر گئے اس پہ اس کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے اپنے آپ سے یہ وعدہ کیا کہ میں اپنی زندگی کے کھوئے ہوئے لمحات کو اپنے خوابوں کی ٹوٹی ہوئی کرچیوں کو سمیٹ کر اپنی زندگی میں ایک نیا رنگ بھرونگی ۔
اور آج وہ اپنی زندگی کا نیا سفر طے کرنے کے لیے، اپنے نئے دوستوں کے ہمراہ، ہاتھوں میں کتابیں لیے، آرٹس کالج کے میدان میں ایک نئے عزم و حوصلے کے ساتھ کھڑی ایک بار پھر سے اونچی اڑان اڑنے کے لیے تیار تھی۔

معطر عقیل

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
غزل بقلم محمد ولی اللّٰہ ولی