- Advertisement -

کیوں نہ ہم اس کو اسی کا آئینہ ہو کر ملیں

عدیم ہاشمی کی اردو غزل

کیوں نہ ہم اس کو اسی کا آئینہ ہو کر ملیں
بے وفا ہے و ہ تو اس کو بے وفا ہو کر ملیں

تلخیوں میں ڈھل نہ جائیں وصل کی اکتاہٹیں
تھک گئے ہو تو چلو پھر سے جدا ہو کر ملیں

پہلی پہلی قربتوں کی پھر اٹھائیں لذتیں
آشنا آ پھر ذرا نا آشنا ہو کر ملیں

ایک تو ہے سر سے پا تک سراپا انکسار
لوگ و ہ بھی ہیں جو بندوں سے خدا ہو کر ملیں

معذرت بن کر بھی اس کو مل ہی سکتے ہیں عدؔیم
یہ ضروری تو نہیں اس کو سزا ہو کر ملیں

عدیم ہاشمی 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عدیم ہاشمی کی اردو نظم