وہاں محفل نہ سجائی جہاں خلوت نہیں کی
اس کو سوچا ہی نہیں جس سے محبت نہیں کی
اب کے بھی تیرے لیے جاں سے گزر جائیں گے ہم
ہم نے پہلے بھی محبت میں سیاست نہیں کی
تم سے کیا وعدہ خلافی کی شکایت کرتے
تم نے تو لوٹ کے آنے کی بھی زحمت نہیں کی
دھڑکنیں سینے سے آنکھوں میں سمٹ آئی تھیں
وہ بھی خاموش تھا ہم نے بھی وضاحت نہیں کی
رات کو رات ہی اس بار کہا ہے ہم نے
ہم نے اس بار بھی توہین عدالت نہیں کی
گرد آئینہ ہٹائی ہے کہ سچائی کھلے
ورنہ تم جانتے ہو ہم نے بغاوت نہیں کی
بس ہمیں عشق کی آشقتہ سری کھینچتی ہے
رزق کے واسطے ہم نے کبھی ہجرت نہیں کی
آ ذرا دیکھ لیں دنیا کو بھی کس حال میں ہے
کئی دن ہو گئے دشمن کی زیارت نہیں کی
تم نے سب کچھ کیا انسان کی عزت نہیں کی
کیا ہوا وقت نے جو تم سے رعایت نہیں کی