پھرتی ہیں اس کی آنکھیں آنکھوں تلے ہمیشہ
رہتا ہے آب دیدہ یاں تا گلے ہمیشہ
تصدیع ایک دو دن ہووے تو کوئی کھینچے
تڑپے جگر ہمیشہ چھاتی جلے ہمیشہ
اک اس مغل بچے کو وعدہ وفا نہ کرنا
کچھ جا کہیں تو کرنا آرے بلے ہمیشہ
کب تک وفا کرے گا یوں حوصلہ ہمارا
دل پیسے درد اکثر غم جی ملے ہمیشہ
اس جسم خاکی سے ہم مٹی میں اٹ رہے ہیں
یوں خاک میں کہاں تک کوئی رلے ہمیشہ
آئندہ و روندہ باد سحر کبوتر
قاصد نیا ادھر کو کب تک چلے ہمیشہ
مسجد میں چل کے ملیے جمعے کے دن بنے تو
ہوتے ہیں میر صاحب واں دن ڈھلے ہمیشہ
میر تقی میر