قائد اعظم کا نوجوانوں سے ذاتی حیثیت سے خطاب !
عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم
قائد اعظم کا نوجوانوں سے ذاتی حیثیت سے خطاب !
ملک کا مستقبل نوجوانوں کی معیار سوچ اور فکر پر منحصر ہوتا ہے‘یہ جتنی بامقصد اور بلند ہوگی‘ ملک ترقی کی منازل اتنی تیزی سے طے کرنا‘ بصورت دیگر تنزلی اور پستی کی راہ لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قائدِ اعظم محمد جناح کو نوجوانوں سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔ تقریباً آپ اپنے ہر خطاب میں نوجوانوں کو کوئی نہ کوئی نصیحت یا پیغام ضرور دیتے تھے۔ نوجوانوں میں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ موجود ہوتا ہے لیکن خدمت کے اس جذبہ کو بروئے کار لانے کا طریقہ اور اسلوب معلوم نہیں ہوتا۔ اگر کوئی اپنے تئیں ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہے تو وہ کس طرح ملک و قوم کی خدمت کرسکتا ہے؟ وہ کون سے اصول ہیں جن پر چل کر وہ ملک و قوم کی خدمت میں اپنا حصہ شامل کرسکتا ہے؟
لکھنؤ میں خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ”نوجوانو! اپنی تنظیم کرو۔ یک جہتی اور مکمل اتحاد پیدا کرو اپنے آپ کو تربیت یافتہ اور مضبوط سپاہی بنا ؤ۔ اپنے اندر اجتماعی جذبہ اور رفاقت کا احساس پیدا کرو اور ملک و قوم کے نصب العین کے لیے وفاداری سے کام کرو“۔ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ تاریخ میں وہ مقام حاصل نہ کریں جو آپ کے آباؤ اجداد نے حاصل کیا تھا۔ آپ میں مجاہدوں جیسا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے“۔ (لاہور میں طلبا سے خطاب 30 اکتوبر 1937)۔
قائد اعظم محمد علی جناح کو نوجوان طلبا سے بہت محبت تھی، اسی لیے تو نوجوان مسلم طلبا نے قائد اعظم کے ولولہ انگیز پیغام کو حرز جان بناتے ہوئے تحریک پاکستان میں سر دھڑ کی بازی لگاکر تاریخ حریت کو اپنے خون اور نوک شمشیر سے رقم کیا۔ قائد اعظم نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یوں فرمایا:”نوجوان طلبا میرے قابل اعتماد کارکن ہیں۔ تحریک پاکستان میں انھوں نے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دی ہیں۔ طلباء نے اپنے بے پناہ جوش اور ولولے سے قوم کی تقدیر بدل ڈالی ہے۔1937 ء کے کلکتہ کے اجلاس میں قائداعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
”نئی نسل کے نوجوانو! آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کرکے اقبال اور جناح بنیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں مضبوط رہے گا“۔تحریک پاکستان میں سب سے پہلے اپنی قیمتی جان کا نذانہ پیش کرنے والا بھی ایک طالب علم تھا۔ جنوری 1947 کی تحریک سول نافرمانی میں بھی طلبا نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
”آپ کو یاد ہوگا، مَیں نے اکثر اس بات پر زور دیا ہے کہ، دشمن آپ سے آئے دن ہنگاموں میں شرکت کی توقع رکھتا ہے۔ آپ کا اولین فرض علم کا حصول ہے‘ جو آپ کی ذات، والدین اور پوری قوم کی جانب سے آپ پر عائد ہوتا ہے۔ آپ جب تک طالب علم رہیں اپنی توجہ صرف تعلیم کی طرف مرکوز رکھیں۔ اگر آپ نے اپنا طالب علمی کا قیمتی وقت غیر تعلیمی سرگرمیوں میں ضائع کردیا تو یہ کھویا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا“۔ایک اور موقعے پر قائداعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
”میں آج آپ سے سربراہِ مملکت کی حیثیت سے نہیں ذاتی دوست کی حیثیت سے مخاطب ہوں۔ میرے دِل میں نوجوانوں خصوصاً طالب علموں کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ آپ پر قوم اور والدین کی طرف سے بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ متحد ہوکر ملکی تعمیر و ترقی میں مصروف ہو جائیں“۔
”میرے نوجوان دوستو! میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ اب ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ یہ ہماری اپنی حکومت ہے، ہم ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے مالک ہیں۔ ہمیں آزاد اقوام کے افراد کی طرح اپنے معاملات کا انتظام کرنا چاہئے۔ اب ہم کسی بیرونی طاقت کے غلام نہیں ہیں‘ ہم نے غلامی کی بیڑیاں کاٹ ڈالی ہیں۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ، میرے نوجوان دوستو! اب میں آپ ہی کو پاکستان کا حقیقی معمار سمجھتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی باری آنے پر کیا کچھ کر کے دکھاتے ہیں۔ آپ اس طرح رہیں کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کرسکے۔ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور استحکام پیدا کریں اور ایک مثال قائم کریں کہ نوجوان کیا کچھ کرسکتے ہیں“۔
نوجوانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔ ہر شخص اگر اپنے آپ کی اصلاح کرلے تو یہ بھی ملک کی خدمت میں شمار ہوگا۔ آج کے دور میں بھی اگر نوجوانوں کے شب و روز کے معمولات کا مشاہدہ کیا جائے تو نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ ان کی زندگی کے زیادہ تر معمولات طبعی اور فطری اصولوں کے خلاف ہیں۔ بے جا کا موں میں وقت ضائع کرنا نوجوانوں کا بہترین مشغلہ بن چکا ہے۔ انٹر نیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کا غلط استعمال اُن کا شیوہ بن چکا ہے۔ اُن کی زندگی میں دیانت داری اور امانت داری کاتصور ہیچ ہے۔ اُن کے اندر اجتماعیت کا فقدان ہے۔ دورِ حاضر کے چیلنجز اس کے متقاضی ہیں کہ نوجوانوں میں اتحاد و یگانگت ہو۔ اُن کی زندگی کا کوئی لمحہ بے مقصد نہ گزرے۔ اُن کے شب و روز کے معمولات تضیع اوقات کا سبب نہ بنیں۔ وہ بہترین تعلیم یافتہ ہوں۔ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ قائدِ اعظم کو نوجوانوں سے یہی توقع تھی۔ہماری اپنی تہذیب ہے‘ مغربی یلغار سے متاثر نہ ہوں بلکہ اپنی تہذیب میں انہیں ڈھل لیں۔
مارچ ۱۹۴۸ء میں ڈھاکہ میں قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”میرے نوجوانو! میں تمہاری طرف توقع سے دیکھتا ہوں کہ تم پاکستان کے حقیقی پاسبان اور معمار ہو۔ دوسروں کے آلہ کار مت بنو‘ان کے بہکاوے میں مت آؤ۔ اپنے اندر مکمل اتحاد اور جمعیت پیدا کرو اور اس کی مثال پیش کر دو کہ جوان کیا کر سکتے ہیں“۔ یعنی نو جوان دوسری اقوام سے مرعوب نہ ہوں‘ بالخصوص دُنیا کی ظالم اور استعماری طاقتوں کے نظریات سے متاثر نہ ہوں‘ ذہنی طور پر ان کے غلام نہ بنیں۔ اُن کی اپنی ایک شناخت ہو‘نہ یہ کہ وہ دوسروں کی تقلید میں اپنی شناخت کھو بیٹھیں۔ ان کی اپنی زندگی ایسی ہو جو دوسروں کے لیے قابلِ تقلید بن سکے۔ دوسروں کے راستے پر چلنے کے بجائے دوسروں کو اپنے راستے پر چلانے کا نمونہ قائم کریں۔ یہ اُسی صورت ممکن ہے جب وہ خود اپنی اصلاح کریں۔ جب ہر شخص اپنی اصلاح کرے گا تو نتیجۃً معاشرہ امن کا گہوارہ بنے گا۔ ہر شخص کے دل میں دوسرے کا احترام ہوگاتو ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ پروان چڑھے گا۔
آئیں ہم بھی دوسروں کی امید بن کر زندہ رہیں‘ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں اور اَمر ہو جائیں‘تعلیم پر توجہ دیں اور مستقبل روشن کریں۔نوجوان قائدِ اعظم کو مشعلِ راہ بناکر ملکی سلامتی و بقا اور نظریاتی و سیاسی استحکام کے لیے بہت بڑا اور اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔دوسری اقوام سے مرغوب ہو کر اپنی تہذیب بھول جانا ہی ملک و قوم کی تباہی ہے۔
عابد ضمیر ہاشمی