ہَوا کے پَر کَترنا اب ضروری ہو گیا ہے
(حیات عبداللہ.. انگارے)
منظر بڑا ہی منٹھار اور دلوں کو قرار سے لاد دینے والا ہے۔دس ہزار طلبہ کا جلوس بھارتی پولیس اور فوج کی چھاتی پر مُونگ دَل کر” پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگا رہا ہے۔بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر میروٹ کا ایس پی، مسلمان طلبہ کو دھمکیاں دیتا ہے کہ تم پاکستان چلے جاؤ ورنہ جیل میں ڈال دوں گا۔بھارت میں” پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ اس سے قبل بھی گذشتہ سال فروری میں گونج اٹھا تھا۔بھارت میں یہ منظر بے سبب اور بلاوجہ تو نہیں بپا ہوا بلکہ اس من موہنے منظر کے عقب میں بے شمار بھارتی کرتوت اور لچھن موجود ہیں کہ آج بھارتی گلی کوچوں وہی نعرہ گونجنے لگا ہے جو مقبوضہ کشمیر میں روز ہی گونجتا ہے۔
کس کس ظلم کا تذکرہ کیا جائے؟ کون کون سے بھارتی جرائم کا حوالہ دیا جائے؟ کہ ماہ وسال کے قرب وجوار سے لے کر کئی عشروں تک تک پھیلی وسعتوں میں ہندو استبداد کی اَن گنت کتھائیں موجود ہیں۔دہشت گردی کے بطن سے جنم لے کر وزارتِ عظمی کی کرسی پر متمکن ہونے والے مودی کے دور میں ان مظالم نے بھارتی مسلمانوں کی آنکھوں میں ایسے لہو رنگ اشک اور جسموں میں ایسے خوں چکاں زخم جھونک دیے ہیں کہ جن سے 25 کروڑ بھارتی مسلمانوں سمیت تمام اقلیتیں تلملا اٹھی ہیں۔بھارتی سیکولرازم کے ڈھول کا پول اب ان تمام لوگوں پر کُھل چکا ہے جو اس ڈھول کی بے ڈھنگی تان پر امن کا بے سُرا راگ الاپ کر بھارتی محبت میں پاگل ہوئے جا رہے تھے۔حیرت ہے کہ بھارتی سیکولرازم اپنی وضع قطع اور خدوخال میں اتنا” مضبوط“ ہے کہ چاہے سارے بھارتی مسلمانوں اور اقلیتوں کو کاٹ کر رکھ دیا جائے، اس پر خفیف سی خراش تک نہیں آتی۔اقلیتوں پر ہمہ قسم کے جبر کے باوجود یہ سیکولرازم جوں کا توں موجود رہتا ہے۔لیکن اگر کسی بھی ہندو تو کجا گائے کی شان میں بھی گستاخی کر دی جائے تو یہ سیکولرازم اتنا نازک اندام بن جاتا ہے کہ لمحوں میں ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔بھارتی ہجروفراق میں چند پاکستانی سیاست دان، کھلاڑی اور شوبز سے متعلقہ افراد ہی بے کل اور مضطرب رہتے ہیں۔کیا ہم یہ قصّہ ء درد بُھلا بیٹھے ہیں کہ خورشید قصوری کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کو شیوسینا کے غنڈوں نے ڈنڈے کے زور پر روک لیا تھا اور اس کے آرگنائزر سدھندرا کلکرنی پر تشدد کر کے اس کا منہ کالا کر دیا تھا۔کیا پاکستانی کھلاڑیوں نے ہندوؤں کی آنکھ میں دہکتی وہ دشمنی کی آگ نہیں دیکھی کہ جب کرکٹ بورڈ کے باہر مودی کے پالتو شیوسینا کے شدت پسند لوگ نجم سیٹھی اور شہر یار کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ہندو اتنے اوچھے ہیں کہ گھر آئے مہمانوں کی توہین اور ہتک کر رہے تھے کہ شہریار واپس جاؤ۔شیو سینا نے پاکستانی ایمپائر علیم ڈار کو بھی بھارت اور جنوبی افریقا کے درمیان میچ کی ایمپائرنگ سے روکنے کی دھمکیاں دی تھیں۔اکتوبر 2006 میں بھی شیوسینا کے صدر اودھاؤ ٹھاکرے نے آئی سی سی چیمپئن ٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے آنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دھمکی دی تھی کی پاکستان کو میچ کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پاکستانی فن کاروں کی بھارتی نظروں میں جو وقعت ہے وہ گاہے گاہے اس طرح عیاں ہوتی رہتی ہے کہ اکثر اداکار اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔گلوکار عاطف اسلم کو شیوسینا دھمکیاں دے چکی ہے کہ کسی بھی پاکستانی فن کار کو بھارت میں اپنے فن کا مظاہرہ نہیں کرنے دیا جائے گا۔اس سے بھی زیادہ توہین آمیز منظر دیکھنا ہے تو نئی دہلی کے قریب گڑگاؤں میں شیوسینا کو دیکھ لیجیے جہاں کچھ عرصہ قبل پاکستانی سٹیج فن کاروں کو ڈرامے سے روک دیا گیا تھا۔اُنھوں نے تھیٹر میں گُھس کر ہنگامہ آرائی کی تھی اور اداکاروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔عین ڈرامے کے دوران اُنھوں نے پاکستان کے خلاف نعرے لگائے۔یہی بھارتی شدت پسند لوگ، معروف غزل گائیک غلام علی خان کو بھی دھمکیوں کے تحائف بھیج چکے ہیں کہ انھیں بھارت میں فن کا مظاہرہ نہیں کرنے دیا جائے گا۔اس سے خوف زدہ ہو کر غلام علی خان نے اپنا کنسرٹ ہی منسوخ کر دیا تھا۔
آئیے! بھارتی مظالم کے کچھ اور دل فگار مناظر دکھاؤں۔نئی دہلی میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے سابق رکن انجینیئر رشید پر حملہ اور اس کے منہ پر سیاہی پھینکنے کا واقعہ سب پڑھ چکے ہیں۔راشٹریہ سیوک سنگھ، بجرنگ دل، شیوسینا اور”را “ یہ ساری دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔یہ اپنی دہشت گردی خود تسلیم بھی کرتی ہیں مگر اس کے باوجود اقوامِ متحدہ کے دل میں طوفان تو کجا، ارتعاش تک پیدا نہیں ہوتا۔بھارتی شدت پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کا ہندو دہشت گرد کُمل چوہان کھلم کھلا یہ اعتراف کر چکا ہے کہ اس نے اپنے چار ہندوؤں کے ساتھ مل کر سمجھوتا ایکسپریس میں سوٹ کیس بم رکھے تھے۔اُس نے یہ اعتراف کسی کونے کُھدرے میں چُھپ کر نہیں کیا تھا بلکہ عین عدالت کے سامنے کیا تھا اور بات صرف اس ایک سانحے کے تسلیم ورضا تک ہی محدود نہیں بلکہ اُس نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اگر اسے دوبارہ موقع ملا تو وہ آئندہ بھی ایسا ہی کرے گا۔بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر سدھارتھ میں آٹھویں جماعت کے طالبِ علم گل زار احمد کو تعلیمی دورے پر لے جانے کے بہانے آر ایس ایس کے ٹریننگ کیمپ میں لے جایا گیا اور اسے مسلمانوں سے نفرت کی تعلیم دی جانے لگی۔اسے جبراً ہندو بنا لیا گیا تھا۔بھارتی سیکولرازم کا پھوٹتا بھانڈا ہر روز ہی دکھائی دیتا ہے مگر خبر نہیں کیوں ہمارا برسرِ اقتدار طبقہ اپنی آنکھیں مُُوند لیتا ہے۔2014 میں ہندو دہشت گرد تنظیموں نے 200 مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا لیا تھا۔آگرہ میں راشٹریہ سیوک سنگھ اور بجرنگ دل کے شدت پسندوں نے ایک تقریب منعقد کی اور ان مسلمانوں کو ہندو مورتیوں کے پاؤں دھونے پر مجبور کیا اور ان کے ماتھے پر زبردستی ہندو نشان بھی لگا دیا گیا تھا۔بھارت کی یہ دہشت گردی واشگاف اور عیاں ہے۔اگر وہ محض اندرونی طور پر دہشت گردی کرتا تو پاکستان میں موجود بھارتی دیوانوں نے کبھی تسلیم ہی نہیں کرنا تھا کہ بھارت ہمارا دشمن ہے۔ایسی کیفیت میں یہ بہ ہر طور بھارتی دوستی کے لیے ہی نغمہ سرا ہوتے مگر اب بھارتی معاندت گھونگٹ سے منہ نکال کر چیخ رہی ہے۔بدخواہ بھارت کا انگ انگ پاکستان کی دشمنی میں پھڑک رہا ہے۔سماعتوں کے لیے انتہائی گراں گزرنے والا امن کی آشا کا ڈھول بڑے جَتنوں سے بند ہوا ہے۔مگر اسی پر اکتفا کرنا وقت کی ضرورت سے چنداں مطابقت نہیں کھاتا بلکہ شعور اور ادراک کی آنکھیں مکمل طور پر کھول کر بھارتی مظالم کو دنیا پر آشکار کرنا ہو گا۔ بھارت میں” پاکستان زندہ باد“ کے نعرے سُن کر ہمارے احبابِ بست وکشاد کی آنکھیں اب تو کُھل جانی چاہییں۔جس طرح بھارت ہمارے خلاف سرگرم ہے ہمیں کم از کم اتنا تو متحرک ضرور ہو جانا چاہیے۔
ہَوا کے پَر کَترنا اب ضروری ہو گیا ہے
مرا پرواز بھرنا اب ضروری ہو گیا ہے