- Advertisement -

خط اور انتظار

ایک افسانہ از معافیہ شیخ

خط اور انتظار

خط نمبر ١؛
“میں اب بھی آپ سے براہ راست بات کرنے کو نہیں کہتی۔ میں بس یہ خط چھوڑ جاؤں گی۔ مجھے جواب لکھ بھیجنا۔۔۔۔ پچھلی بار کی طرح انتظار مت کروانا۔۔۔۔ آپ کے خط کی منتظر!
اس نے خط لفافے میں ڈال کر پرس میں رکھ دیا اور منہ دھونے چلی گئی، اس کا روز کا یہی معمول تھا صبح ناشتہ کرنے کے بعد سکول کے لئے نکل جاتی جہاں وہ پرائمری سکول کے بچوں کو انگریزی پڑھاتی تھی تھی، پھر واپس آ کر وہ ایک خط میں دن بھر کی روداد اور کچھ گلے شکوے لکھتی اور اسے پرس میں ڈال کر رات کا بنایا کھانا نکالنے لگ جاتی۔ کھانے سے فارغ ہو جانے کے بعد حسب معمول وہ تھوڑا آرام کرتی اور پھر یونیورسٹی کی طرف نکل پڑھتی، وہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ پڑھ بھی رہی تھی۔ اس کی زندگی پڑھنے اور پڑھانے تک ہی محدود تھی۔ وہ بچیس سالہ جوان تھی اور کم گو ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی الگ دنیا میں رہنے والی لڑکی تھی۔ اس نے کبھی دوست نہیں بناۓ تھے۔ کوئی ایسا دوست نہ تھا جس سے وہ اپنی کوئی بات شیئر کرتی ہو۔ اس کے دل سے بات نکلتی تھی تو صرف صفحے پر اترنے کے لئے جسے وہ سلیقے سے صفحے پر اتار دیتی تھی اور ہر شام یونیورسٹی سے واپسی پر وہ لکھا ہوا خط اس کے گھر کے باہر چھوڑ آتی تھی جو اس کا واحد بہترین دوست تھا۔
خط نمبر ٢؛
“میں آپ سے ناراض ہوں آپ نے اب بھی میرے خط کا جواب نہیں دیا۔۔۔۔۔ کیا آپ کو علم نہیں کہ میں بلکل اکیلی ہوتی ہوں یہ واحد خط ہی تو ہے جو آپ سے رابطے کا ذریعہ ہے۔۔۔۔ ٹیلیفون کے اس دور میں بھی آپ کو ٹیلفون پسند نہیں۔ خدارا خط کا جواب تو دیں۔۔۔ اچھا چلیں باقی گِلے آپ سے مل کر کروں گی۔ آپ کو بتاتی ہوں آج میرے سکول میں رزلٹ تھا، میری کلاس کی ایک بچی نے پورے سکول میں ٹاپ کیا ہے، اس کے والد صاحب آئے تھے بہت خوش تھے۔ میری طالبہ آمنہ بھی خوشی سے پاگل ہو رہی تھی۔ مجھے بھی اچھی ٹیچر ہونے کا ایوارڈ ملا ہے۔ میں بھی خوش ہوں۔ آپ بہت یاد آئے تھے تب۔۔۔۔ اچھا اب تھک گئی ہوں صبح خط لکھوں گی اور آپ کے خط کا انتظار بھی کروں گی۔۔۔۔ ” آپ کی منتظر۔
خط نمبر٣؛
“کل یکم تاریخ ہے مجھے تنخواہ ملے گی، پھر میں اس سے اپنی یونیورسٹی کی فیس ادا کروں گی، راشن لاؤں گی۔۔۔۔ ہر بار راشن میں آپ کی پسند کی چیزیں لاتی ہوں۔ آپ ہر دفعہ مجھے مایوس کر دیتے ہیں۔ میرے گھر آتے ہی نہیں۔۔۔ ایسا نہ ہو میں بھی آپ کے گھر آنا چھوڑ دوں لیکن میں رہ بھی تو نہیں سکتی نا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں آپ کے گھر کے پاس سے بھی گزروں اور آپ تک اپنا خط بھی نہ پہنچاؤں۔ خیر میں نے کچھ نئے کپڑے بھی خریدے تھے۔۔۔۔ میری ایک طالبہ کے والد کی کپڑوں کی دکان ہے، ان سے خرید لائی تھی۔ بتا دیا تھا کہ رقم کی ادائیگی پہلی تاریخ کے بعد کر کروں گی۔ بہت عزت کرتے ہیں۔ بلا جھجک مجھے سوٹ دے دئے اور کہنے لگے؛ آپ کے پاس جب ہوں تب دے دیجیۓ گا، میں شرمندہ ہو کر کہنے لگی نہیں تنخواہ ملتے ہی ادائیگی کر دوں گی۔ میں نے صحیح کہا نا؟ ویسے کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے آپ کو خط لکھنے کے بجائے ڈائری لکھ لیا کروں۔ کم سے کم خط کے جواب کی طرح انتظار تو نہیں کروں گی نا۔۔۔۔ مگر پھر بھی۔۔۔۔ ، آپ کے خط کی منتظر۔
خط نمبر ۴؛
” آج میں بہت اداس ہوں، دل چاہتا ہے آپ کے گلے لگ کر بہت رؤں مگر آپ آتے ہی نہیں۔۔۔۔ پتا نہیں آپ کو کیا مصروفیات ہیں۔ میں پیشہ ور خاتون ہوں اور اکیلی رہتی ہوں۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے نا کہ میں ایک بری عورت ہوں۔۔۔ لوگ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں؟ وہ شاید ناواقف ہیں۔ میں نایاب ملک ہوں۔۔۔۔۔ عماد ملک کی بیٹی۔۔۔۔ پاپا میرا دل کٹ جاتا ہے جب لوگ مجھے بری نظر سے دیکھتے ہیں۔ میں بری عورت نہیں ہوں آپ کو تو معلوم ہے نا۔۔۔۔ آپ آ جائیں گے تو سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔ آج میرے پاس الفاظ نہیں ہیں لکھنے کو۔۔۔۔۔ صرف آنسو ہیں۔۔۔۔۔ جو میں آپ کے گلے لگ کر بہانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ میں کل آپ سے ضرور ملوں گی اور پورے سال میں لکھے گئے ہر خط کا جواب لوں گی۔
یہ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ خط کے اختتام پر آپ کے جواب کی منتظر یا آپ کی منتظر جیسے جملے نہیں لکھے گئے تھے نہ خط پرس میں ڈالا گیا تھا۔ ساری رات اس نے جاگ کر کاٹی، اپنے آنسوؤں سے چہرے کو غسل دیا۔ کالی درد ناک رات کٹ گئی اور نئی صبح کا سورج طلوع ہوا۔ اس نے جلتی ہوئی آنکھوں میں پانی کے چھینٹے مارے اور بِنا ناشتہ کئے پرس میں وہ خط ڈالا اور اسے کندھے پہ لٹکائے گھر سے نکل گئی۔ آج اس کے قدم سکول کی جانب رواں نہیں تھے۔۔۔۔ یہ تو وہ رستہ تھا جہاں وہ یونیورسٹی سے واپسی پر خط دینے جاتی تھی۔ وہ لڑکھڑا کر چل رہی تھی جیسے آج ہار کر اس در پہ دستک دینے گئی ہو۔
” آج تو میرے ساتھ واپس چلو۔۔۔۔ آپ کو تو مجھ سے منہ موڑے دو سال گزر گئے مگر مجھے اب تک اکیلا رہنے کی عادت نہیں ہوئی۔ میرے پاس بھلا کون سے رشتوں کی بھیڑ تھی جو مجھے چھوڑ کر اپنی الگ دنیا بسا لی؟ مجھے گلے سے کیوں نہیں لگاتے؟ میں یاد نہیں آتی؟ میری ناراضی کی کوئی فکر نہیں؟ کیا میرا خیال بھی نہیں آتا؟ میرے آنسو نظر نہیں آتے؟ مجھ سے بات تو کرو۔۔۔۔ آج تو ملاقات کا دن ہے۔۔۔۔ آج میں صرف خط دینے نہیں آئی بلکہ آپ سے ملنے آئی ہوں پاپا۔ آپ کو پتا ہے نا پوری دنیا میں میرے واحد بہترین دوست آپ ہیں۔۔۔۔ چلیں آج اپنے گھر چلتے ہیں بہت سی باتیں کریں گے۔ چلیں نا۔۔۔۔ اب یہ ضدی بچہ بہت سی باتوں میں ضد نہیں کرت۔۔۔۔ نا ہی ہر چیز پر انگلی رکھتا ہے کہ ہر چیز خرید کر لے دیں۔۔۔۔ میں وعدہ کرتی ہوں اب کبھی تنگ نہیں کروں گی۔ آنسو مسلسل اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔ آپ کہتے تھے بڑی ہو جاؤ پھر تمہیں تمہارے گھر بھیج دوں گا۔۔۔۔ پھر مجھے بھیجنے کی بجاۓ آپ نے اپنا نیا الگ گھر کیوں بنا لیا؟ اب میرے گھر کی فکر کون کرے گا میری تو ماں بھی نہیں۔۔۔۔ پاپا میں خفا ہوں آپ سے۔۔۔۔ آپ بہت وعدہ خلاف ہیں۔ اس وقت وہ دس سالہ ناراض بچی لگ رہی تھی جسے اس کی پسند کی چاکلیٹ نہ ملی ہو اور وہ روٹھ کر۔۔۔۔ رو کر وہ حاصل کرنا چاہ رہی ہو۔ میں اب کبھی آپ کو خط نہیں لکھوں گی مگر۔۔۔۔ مگر آپ کے خط کا انتظار کروں گی۔
جس گھر پر دستک دینے وہ روز آتی تھی اس گھر کا کوئی دروازہ تھا نہ کوئی کمرہ نہ کھڑکی۔۔۔۔ اس نے پرس میں موجود خط نکالا اور تختی کے پاس رکھ کر اپنے مردہ جذبوں کی لاش گھسیٹتے۔۔۔۔ مرے ہوۓ لوگوں کے درمیان سے آنسو بہاتی وہاں سے نکل آئی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سرفراز آرش کی ایک غزل