گردِ ملال چہرے پہ مَلتا رہا ہوں مَیں
سڑکوں پہ دھوپ اوڑھ کے چلتا رہا ہوں مَیں
کارِ ہنر ہے کوئی نہ کارِ نمایاں کچھ
سائے کا کام ڈھلنا ہے ڈھلتا رہا ہوں مَیں
وعدہ ہوں اور وعدے کی تقدیر کی طرح
فردا کے احتمال پہ ٹلتا رہا ہوں مَیں
دنیا کی ٹھوکروں نے ہی جینا سکھایا ہے
رہ رہ کے تیرگی میں اُجلتا رہا ہوں مَیں
دیوار و در میں قید رہا ساری زندگی
کہنے کو روز گھر سے نکلتا رہا ہوں مَیں
اوروں کا دو قدم بھی سہارا نہیں لیا
گِر گِر کے اپنے آپ سنبھلتا رہا ہوں مَیں
شاعرؔ نہیں ہے مجھ کو مقدّر سے کچھ گلہ
سورج ہوں اپنی آگ میں جلتا رہا ہوں مَیں
شاعر علی شاعر