خلیفہ سوئم امیر المومنین
ایک اردو تحریر از یوسف برکاتی
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
آج کی تحریر میں ہم خلیفہ سوئم امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت اور ان کی کرامات کا ذکر خیر کریں گے
خلیفہ سوئم امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کنیت ” ابوعمرو” اور لقب ” ذوالنورین” یعنی دو نور والے تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریشی تھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسب نامہ یہ ہے عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدالشمس بن عبدالمناف آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندانی شجرہ عبدالمناف پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کے نسب نامہ سے مل جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آغاز اسلام میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا اور اس وجہ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا اور دوسرے کافروں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسلمان ہو جانے کی وجہ سے بہت ستایا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے حبشہ کی طرف حجرت فرمائی اور بعد میں مدینہ منورہ کی طرف حجرت فرمائی اس لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ” صاحب الحجرتین” کہا گیا یعنی دو حجرت والے اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نکاح میں آئیں اس لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لقب ” ذوالنورین” ہوا یعنی دو نور والے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ بدر کے علاوہ تمام جنگوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے جنگ بدر کے موقع پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی صاحبزادی شدید علیل تھیں اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ بدر میں شرکت سے منع فرمادیا تھا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مجاہدین بدر میں شمار کرکے مال غنیمت میں سے مجاہدین کے برابر حصہ دیا اور اجروثواب کی بشارت بھی دی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد خلیفہ منتخب ہوئے اور کم و بیش بارہ برس تک تخت خلافت پر فرائض انجام دئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی حکومت کی بہت زیادہ توسیع ہوئی اور افریقہ جیسے ممالک بھی مفتوع ہوکر خلافت راشدہ کے زیر نگین آگئے تھے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات کا ذکر ہمیں کئی مستند کتابوں میں ملتا ہے حضرت علامہ تاج الدین سبکی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ” طبقات” میں تحریر فرمایا ہے کہ ایک شخص نے راہ چلتے ہوئے ایک عورت کو گھور گھور کر غلط نظروں سے دیکھا وہاں سے وہ شخص حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے دیکھ کر نہایت ہی پرجلال لہجہ میں فرمایا کہ تم لوگ میرے سامنے اس وقت کیوں آتے ہو جب تمہاری آنکھوں سے زنا کے اثرات نظر آتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس شخص نے جل بھن کر کہا کہ لگتا ہے حضور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کوئی وحی نازل ہورہی ہے بلا آپ کو کیسے لگا کہ میری آنکھوں میں زنا کے اثرات نظر آرہے ہیں ؟ اس پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھ پر وحی تو نازل نہیں ہوتی لیکن ہاں میں نے جو کچھ کہا ہے وہ بالکل قول حق اور سچی بات ہے اور میرے رب نے مجھے ایک ایسی فراست ( نورانی بصیرت) عطا فرمائی ہے کہ جس کے ذریعے میں لوگوں کے دلوں کے حالات و خیالات کو محسوس کر لیتا ہوں ۔
( حجتہ اللہ علی العالمین ج 2 ص 862 ).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن مجید میں رب تعالی ارشاد فرماتا ہے (ترجمعہ کنزالایمان)
کہ جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاح اور بدنما دھبہ لگ جاتا ہے اور چونکہ دل جسم کا بادشاہ کہلاتا ہے گویا دل پر جب کوئی اثر پڑتا ہے تو پورا جسم اس سے متاثر ہوتا ہے اور اللہ تعالی کے مقرب اور محبوب بندے جن کی آنکھوں میں نور بصارت کے ساتھ ساتھ نور بصیرت بھی ہوا کرتی ہے وہ بدن کے ہر حصے میں ان اثرات کو اپنی نور فراست اور نگاہ کرامت سے دیکھ لیا کرتے ہیں چونکہ امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل بصیرت اور صاحب باطن تھے اس لئے انہوں نے اپنی نگاہ کرامت سے اس شخص کی آنکھوں میں زنا کے اثرات محسوس کرلئے تھے حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں کہ کسی عورت کو غلط نظروں سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے واللہ اعلم ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک حدیث جس کے راوی ہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی کے منبر اقدس پر بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ اچانک ایک بدنصیب اور خبیث النفس انسان جس کا نام ” جھجاہ غفاری ” تھا کھڑا ہوگیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے عصاء چھین کر اسے توڑ دیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے علم و حیاء کی وجہ سے اس سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا لیکن رب تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور اس رب کی قہاری اور جباری نے اس شخص کی بے ادبی اور گستاخی کی سزا یہ دی کہ اس کے اسی ہاتھ میں کینسر کا شدید حملہ ہوا جس کی وجہ سے اس کا وہ ہاتھ گل سڑ کر جسم سے الگ ہوگیا اور گرپڑا اور ایک سال کے اندر اندر وہ اسی حالت میں مر گیا ۔
( حجتہ اللہ علی العالمین ج 2 ص 862 و تاریخ الخلفاء ص 112) ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح ایک روایت کے مطابق حضرت ابو قلابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ملک شام کی سرزمین پر تھا تو میں نے ایک شخص کو یہ صدا لگاتے ہوئے بار بار سنا کہ ” ہائے افسوس میرے لئے جہنم ہے” میں اس کے پاس جب پہنچا تو حیران رہ گیا کیونکہ اس کے دونوں پائوں اور دونوں ہاتھ کٹے ہوئے ہیں اور آنکھوں سے بھی وہ نابینا ہے بس چہرے کے بل زمین پر اوندھا پڑا ہوا تھا اور یہ صدا لگا رہا تھا کہ ” ہائے افسوس میرے لئے جہنم ہے ” میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا یہ حال کیسے ہوا اور تمہیں اپنے جہنمی ہونے پر اتنا یقین کیسے ہے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تو اس نے عرض کیا کہ میرا حال نہ پوچھو میں ان بدنصیب اور بدبخت لوگوں میں شامل تھا جو خلیفہ وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کرنے کی غرض سے ان کے گھر میں گھسے تھے اور جب میں ہاتھ میں تلوار لیکر ان تک پہنچا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ نے مجھے ڈانٹا اور شور مچانا شروع کردیا تو میں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ان کی بیوی صاحبہ کو تھپڑ رسید کردیا جس پر انہوں نے مجھے دیکھ کر بددعا دی کہ اے رب تعالی تیرے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں ضائع کر دے ، دونوں آنکھوں سے تجھے اندھا کردے اور جہنم میں تجھے جھونک دے تو اے شخص میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پر جلال چہرے کو دیکھ کر اور ان کی قاہرانہ دعا کو سن کر کانپ اٹھا میرا تو رونگٹھا کھڑا ہوگیا اور میں خوف و دہشت کے مارے کانپتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے کہا کہ امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تین بدعائیں تو کام کرگئیں یعنی میں اپنی دونوں ٹانگوں سے بھی محروم ہوں اور دونوں ہاتھوں سے بھی محروم ہوگیا ہوں جبکہ تیسری بددعا نابینا ہونے کی وہ بھی پوری ہوگئی بس اب چوتھی بددعا یعنی میرا جہنم میں داخل ہونا باقی رہ گئی ہے مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ بھی میرے ساتھ ہوگا تو اس کے انتظار میں ہوں کہ اللہ مجھے اٹھا لے اور جہنم میں ڈال دے میں بار بار اپنے جرم کی وجہ سے نادم و سرمشار ہوتا ہوں اور اپنے جہنمی ہونے کا اقرار بھی کرتا ہوں ۔
( ازالتہ الخفاء مقصد 2 ص 227)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان دونوں روایتوں اور ان میں ہونے والی کرامتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ بیشک بڑا غفور ورحیم ہے بڑا مہربان ہے اپنے بندوں سے ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے لیکن اگر کوئی بدنصیب اس کے محبوب اور مقرب بندوں کی شان میں کوئی گستاخی یا بےادبی کرتا ہے تو پھر وہ قہار بھی ہے اور جبار بھی اسے وہ ایسی سزا کا مستحق قرار دیتا ہے کہ انسان دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے نار جہنم کے علاوہ کچھ بھی نہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے زمانے سے لیکر آج بھی یعنی ہمارے درمیان بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور محبوب بندوں کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ہم نے اپنی ان آنکھوں سے ایسے کئی لوگوں کو اپنے برے انجام تک پہنچتے ہوئے دیکھا ہے جن کا آخری وقت بہت برا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ذی شعور اہل ایمان مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور محبوب بندوں کی بے ادبی اور گستاخی کرنے کی لعنت سے محفوظ رکھے اور ان کی تعظیم و توقیر اور ان کے احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس دن حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ کے گھر کا باغیوں نے محاصرہ کرلیا تھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے گھر والوں پر پانی بند کردیا تھا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیاس کی شدت سے بیقرار تھے نے فرماتے ہیں کہ میں جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزہ سے تھے فرمایا اے عبداللہ بن سلام آج میں خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے دیدار پرانوار سے مشرف ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ اے عثمان ظالموں نے پانی بند کرکے تمہیں پیاس سے بیقرار کردیا ہے تو میں نے عرض کیا کہ ہاں تو اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنے دریچی سے ایک ڈول میری طرف لٹکا دی جس میں انتہائی شیریں اور ٹھنڈا پانی بھرا ہوا تھا جسے پی کر میں سیراب ہوگیا اب اس وقت بیداری کی حالت میں بھی میں اس پانی کی ٹھنڈک اپنی چھاتیوں اور کندھوں پر محسوس کررہا ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے عبداللہ بن سلام اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عثمان اگر تم چاہو تو ان ظالموں کے مقابلے میں کوئی امداد بھیجوں اور فرمایا کہ اگر تم چاہو تو ہمارے ساتھ افطار کرلو تو میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے دربار اقدس میں حاضر ہوکر افطار کرنا مجھے اپنی زندگی سے بھی ہزاروں لاکھوں بار زیادہ عزیز ہے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں پھر وہاں سے لوٹ آیا اور ان باغیوں میں سے ایک بدنصیب نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسی رات اس وقت شہید کردیا جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے بارہ ذوالحجہ یا اٹھارہ ذوالحجہ 35 ھ کا کم و بیش دن تھا جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا گیا تو خون کے چھینٹے قرآن کی آیت فسیکفیکھم اللہ پر پڑے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی اور جنت البقیع کے قبرستان میں تدفین کی گئی ۔
( تاریخ الخلفاء وغیرہ) ( البدایہ والنہایہ ج7ص 182)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت امام مالک علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنت البقیع کے قبرستان میں اس جگہ تشریف لے گئے جو
” حش کوکب ” کہلاتا ہے وہاں کھڑے ہوکر فرمایا کہ یہاں عنقریب ایک مرد صالح کو لاکر دفن کردیا جائے گا اس کے بعد ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی باغیوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازے کے ساتھ اتنی ہلڑ بازی کی کہ تدفین کے لئے نہ روضہ انور پر جگہ میسر ہوئی اور نہ ہی بقیع شریف میں اس جگہ جو کبار صحابہ کا قبرستان تھا اور صحابہ کی جگہ تھی بلکہ دور اور بالکل الگ تھلگ جگہ جسے ” حش کوکب ” کہا جاتا تھا وہاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تدفین کی گئی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تدفین وہاں ہوگی کیونکہ اس وقت وہاں کوئی بھی قبر نہیں تھی ۔
( ازالتہ الخفاء مقصد 2 ص 227)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب اور محبوب بندوں کو یہ بھی علم عطا کردیتا ہے کہ وہ کب ،کہاں اور کس طرح دنیا سے رخصت ہوں گے اور انہیں کس جگہ سپرد خاک کیا جائے گا حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت والے دن میں نے اپنے کانوں سے سنا کوئی شخص کہ رہا تھا کہ ” حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو راحت اور خوشبو کی بشارت دو اور نہ ناراض ہونے والے رب سے ملاقات کی خوشخبری سنائو اور خدا کے غفران و رضوان میں بشارت دے دو” حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس آواز کو سن کر نظریں گھمانے لگا پیچھے مڑ کر بھی دیکھا مگر مجھے کوئی شخص نظر نہیں آیا ۔
( شواہد النبوہ ص 158)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی صفحہ 158 میں ایک اور روایت بھی ہمیں ملتی ہے کہ باغیوں کی ہلڑ بازی کے سبب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس لاش تین دن تک بے گوروکفن پڑی رہی پھر چند جانثاروں نے رات کی تاریکی میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازہ مبارک کو جنت البقیع میں لے گئے اور حش کوکب میں قبر کھودنا شروع کردی تو اچانک سواروں کی ایک بہت بڑی جماعت جنت البقیع میں داخل ہوئی تو لوگوں میں خوف و حراس پیدا ہوگیا تب انہوں نے کہا بھاگوں نہیں ہم بھی ان کی تدفین میں شرکت کے لئے آئے ہیں تب لوگوں نے سکون کا سانس لیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تدفین ہوئی واپس آکر ان صحابیوں نے قسم کھا کر بتایا کہ وہ جماعت انسانوں کی نہیں بلکہ فرشتوں کی تھی اور انہیں اللہ نے بھیجا تھا ۔ ( شواہد النبوہ ص 158)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کم و بیش بیاسی (82) سال کی عمر میں مصر کے باغیوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کا محاصرہ کرکے جمعہ کے دن اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد خلافت کی یہ ذمہ داری حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے سپرد ہوئی اور انہوں نے اسلام کے چوتھے خلیفہ کے طور پر اپنی ذمہ داری کا آغاز کیا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یوں تو بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ مختصر اور جامع انداز میں آپ تک ان کے بارے میں معلومات پہنچاؤں آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی طرح زندگی گزار کر دین کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
( بحوالہ کرامات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔برائے
حضرت عبد المصطفی الاعظمی عفی عنہ) ۔
ایک اردو تحریر از یوسف برکاتی