قسم اُس صبحِ ساحر کی
کہ جس کے آئینے میں بس ترے پیراہن صد رنگ کے
منظر جھلکتے ہیں
قسم اُن زرد دو پہروں میں
جلتی بلتی سڑکوں کی
درختوں سے لپٹتی، گرم لہجوں سے بھری پاگل ہَوا کی
اور رِدائے آسماں کی اوٹ میں
اِک دوسرے کی خامشی کے سحر میں گُم چشم و لب کی
جن کا لمسِ اوّلیں اب تک ہمارے
ہر مشامِ جاں میں نبضِ خواب کی صورت دھڑکتا ہے
قسم اُس شام کی
جس شام کے رازوں بھرے لمحوں سے چُن کر میں نے اپنی نرم پلکوں سے تمھارے سردماتھے پر کوئی مہتاب ٹانکا تھا
قسم اُس رات کی
جس رات کے دہشت بھرے گہرے سمندر کی تہوں میں، حرفِ وعدہ سے بندھی میری تمھاری گرم خوشبو کا سخن محفوظ ہے جاناں
یہ دل، اِس دل کی دھڑکن
اور پھر اس دھڑکن میں شامل تیرے لہجے کی تراوٹ میں گندھی وہ صبحیں، شامیں آج تک یوں ہی ہمکتی ہیں مری آغوشِ جاں میں، جس طرح موسم کا پہلا پھول کھلتے وقت ٹہنی پر ہمکتا ہے
ایوب خاور