ابھی ابھی تو کھُلا تھا اِک بھید آئینوں پر
لرزتی شبنم کے پاؤں ٹھہرے ہی تھے گلوں پر
ابھی کہیں گہری شام کا اِک حسین جھونکا
سجل سی خوشبو کو رمز نغمہ سکھا رہا تھا
ابھی تو خوابوں کادر بھی دل پر نہیں کھلا تھا
ابھی تو ٹوٹے ہوئے کھلونوں کا بکس
یونہی دھرا ہوا تھا
ستم گروں نے یہ کیا کیا ہے
کہ آرزو کی سجیلی موجوں کو
رقص گریہ سکھا دیا ہے
وہ دل وفا کا دیا تھا جس کو
چراغ محفل بنا دیا ہے
گلناز کوثر