تپش ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے
رگوں میں لہو کی بلاخیز رفتار کیسے سنبھالے
بھلا ایسی مشکل گھڑی کون ٹالے
بہت تیز جلتی ہوئی ایک ساعت
مری سانس جُھلسا رہی ہے
کٹیلی گھڑی شام سے
بھولے بسرے زمانوں کا اندھا بدن
میرے سینے پہ دھرتی چلی جا رہی ہے
مرا جسم بے معنی حرفوں تلے
پگھلے لاوے بھرا ایک پتھر
مسلسل مری جان دہکا رہا ہے
مرا دل مگر کن زمانوں کی
ٹھنڈک کی جانب
کھنچا جا رہا ہے
سپیدی بھری، آخری، نرم ٹھنڈک
اُدھر ایک کونے میں چکرا رہی ہے
تپش ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے
گلناز کوثر