- Advertisement -

چاکِ خیال جوڑ کے کچھ اور ہی بنا

صابر رضوی کی ایک اردو غزل

چاکِ خیال جوڑ کے کچھ اور ہی بنا
اب جسم و جاں کو چھوڑ کے کچھ اور ہی بنا

دل سے لہو نکال کے شیشے میں ڈال دے
شیشے کو پھر نچوڑ کے کچھ اور ہی بنا

باغِ ارم بھی ٹھیک ہے لیکن مرے لیے
شاخِ ابد مروڑ کے کچھ اور ہی بنا

دریا اگر تمھارے اشارے پہ چل پڑے
پانی کی سمت موڑ کے کچھ اور ہی بنا

سینے کے زرد لوتھڑے ہو جائیں کاسنی
تب ہڈیاں چچوڑ کے کچھ اور ہی بنا

منظر کے ساتھ ساتھ بدل مطمحِ نظر
آنکھوں سے آنکھ پھوڑ کے کچھ اور ہی بنا

یا تو تلاش کر نیا جینے کے واسطے
یا پھر پرانا توڑ کے کچھ اور ہی بنا

دو ساحلوں کی سمت نہ کر بادباں کا رخ
دو بیڑیوں کو بوڑ کے کچھ اور ہی بنا

علی صابر رضوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
صابر رضوی کی ایک اردو غزل