رفتہ رفتہ تو یہ نفرت کی نہ دیوار اُٹھا
زورِ بازو سے تُو اِک بار ہی تلوار اُٹھا
اپنے ہونے کی تُو پیاروں کو گواہی دے دے
فرض تیرا ہے تو کاندھے پہ سبھی بار اُٹھا
تُو نے دیکھے ہی نہیں ہیں وہ کبھی عا رض و لب
باغباں اپنے گُلِ حسن کا معیار اُٹھا
تُو نے پازیب کی دیکھی نہ سُنی ہے جھن جھن
لاکھ سازوں سے تُو فنکار یہ جھنکار اُٹھا
میری تہذیب اجازت نہیں دیتی ہرگز
میرے قدموں میں نہ رکھ اور یہ دستار اُٹھا
سانس جو مجھ سے کرے ہے وہ تقاضا ہے بجا
عشق بھی کر تُو مگر کام کی رفتار اُٹھا
میرے خوش فہم تو بیکار کی سوچوں سے نکل
کس نے بیچا ہے وطن دیکھ لے اخبار اُٹھا
داج کے دکھ بھی ذرا دیکھ پڑوسی گھر میں
اپنی عظمت کے تُو پھر شوق سے مینار اُٹھا
میرے گلشن کے لٹے جن کے سبب سرو و سمن
میری دھرتی سے تُو مولا سبھی غدّار اُٹھا
اکرم کنجاہی