جب ترے ساتھ ساتھ ہوتی تھی
پلو میں کائنات ہوتی تھی
میرا چہرہ دمکنے لگتا تھا
جب کہیں تیری بات ہوتی تھی
یار شامل مخالفین میں تھے
اس لیے تجھ کو مات ہوتی تھی
جیسے ہی اختلاف بڑھتے تھے
اک نئی واردات ہوتی تھی
عکس اس کا تھا پھول کلیوں میں
چاند میں اس کی ذات ہوتی تھی
اس کی اتری مہکتی شال مجھے
مژدۂ التفات ہوتی تھی
جس سیہ رات وہ نہ دِکھتا تھا
تب اماوس کی رات ہوتی تھی
فارحہ نوید