میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کو دنیا میں روشناس کرنے کے لئے ہماری انبیاء کرام علیہم السلام ہمارے صحابہ کرام علیہم الرضوان ہمارے تابعی بزرگوں ہمارے ائمہ اور ہمارے بزرگان دین نے کیا کیا قربانیاں دی ہیں آج جس اسلام کو ہم دیکھتے سنتے پڑھتے اور سمجھنے کی تق و دو میں لگے ہوئے ہیں یہ ہمارے انہی اسلاف کی قربانیوں کا نتیجہ ہے اسی طرح زندگی کے کئی مواقعوں پر وقت اور حالات کو دیکھ کر کوئی ایسا فیصلہ کرنا جو دوسروں کے لئے تو حیرت کردینے والا ہو لیکن پھر وقت نے ثابت کیا کہ فیصلہ درست تھا یہ کام بھی ہمارے اسلاف کی ذہانت اور قابلیت کی دلیل ہے آج ہم اسی طرح کے ایک فیصلے کو اپنی اس تحریر کا حصہ بنانے جارہے ہیں جسے پڑھ کر آپ کو اللہ کی حکمت اور اس کی منشاء کا بھی علم ہوگا اور اس رب تعالی پر مکمل یقین کے ساتھ کئے گئے فیصلے کے انجام کا بھی پتہ چلے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں طائف کے شہر سے ساؤتھ کی طرف جب ہم سفر کرتے جائیں تو اپ کو ایک پہاڑی سلسلہ دکھے گا جہاں چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں یہ وہی علاقہ ہے جہاں نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنا بچپن گزارا تھا ہمارے پیارے اقا صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہ اسی علاقے کی رہنے والی تھی اس سے ذرا نیچے چلے جائیں تو ابحا اور خمیص مشیت کا علاقہ ہے پہاڑوں کے ان سلسلے میں اج بھی وہاں اپ کو بدو بکریاں چراتے ہوئے نظر ائیں گے گزرے سالوں میں اسی علاقے میں ابو مشہود نامی ایک چرواہا تھا جو روزانہ صبح بکریوں کے ریوڑ کو چرانے کے لیے نکلتا تھا ایک دن کچھ اس طرح ہوا کہ شام ڈھلتے ہی اس کی بکریاں تو واپس اگئی مگر ابو مشہود واپس نہیں ایا اس کا بیٹا اور دوسرے اس کے رشتہ دار اس کی تلاش میں نکلے مگر کوئی کامیابی نہ ملی۔اگلے دن ایک بار پھر گاؤں سے نوجوانوں کا ایک گروپ اس کو تلاش کرتا ہوا پہاڑ کے دامن میں پہاڑ کے پیچھے کی طرف ایک چشمے کے پاس پہنچا تو دیکھا وہاں اس کی لاش پڑی تھی اور اس کے جسم پر گولی کا نشان تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں واقعات حالات اور شواہد واضح طور پر یہ کہہ رہے تھے کہ اس کا کسی دوسرے چرواہے کے ساتھ جھگڑا ہوا ہے یہاں عام طور پر چرواہوں کے درمیان یہ جھگڑے کا روزانہ کا معمول تھا اور اکثر یہ چرواہے اپس میں لڑ تے رہتے تھے اپنی بکریوں کو پہلےکون پانی پلائے گا پہلے جنگل میں کون چرنے کے لئے چھوڑے گا اور اس طرح کے کئی مسئلوں پر ان کی لڑائیاں ہوتی رہتی تھی مگر یہ اختلاف اور جھگڑے عام سے ہوتے تھے جو اسی وقت نہ صحیح اگلے دن یا ایک ادھ دن میں ختم ہو جاتے تھے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ کوئی اس طرح کسی کو گولی ماری کر ہلاک کردے پولیس والوں نے گھر والوں سے پوچھا کہ ان کو کسی پر شک ہے یا ان کو لگتا ہے کہ اس کے ساتھ کسی کا جھگڑا ہوا ہے تو گھر والوں نے بتایا کہ وہ سیدھا سادہ بے ضرر انسان تھا اس کا کسی کے ساتھ کبھی کوئی جھگڑا نہیں تھا البتہ وہ فلاں فلاں کے ساتھ مل کر بکریاں چرایا کرتا تھا معمول کی تحقیقات کے بعد پولیس نے علی بن عبدالرحمن نامی ایک شخص کو گرفتار کر لیا کچھ پوچھ گچھ کے بعد اسی کا نام سامنے آیا اور اس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے مان لیا کہ قتل اس نے کیا ہے کورٹ میں کیس چلا واقعات ٫ گواہوں اور اعتراف جرم کی بنا پر جج نے بالآخر فیصلہ سنا تے ہوئے علی بن عبدالرحمن کو سزائے موت کی سزا سنا دی اب اس وقت صورتحال کچھ ایسی تھی کہ مقتول کا بڑا بیٹا مشہود اس وقت 17 سال کا تھا مگر سب سے چھوٹا بیٹا اس وقت دودھ پیتا بچہ تھا قاضی نے فیصلے میں لکھا کہ جب تک یہ بچہ بڑا نہ ہو جائے اس وقت تک سزا نہ دی جائے چنانچہ علی بن عبدالرحمن کو جیل میں ڈال دیا گیا اس وقت اس کی عمر 42 سال تھی اس کو جیل میں 18 سال تک اپنی سزائے موت کا انتظار کرنا تھا کیونکہ جب تک سب سے چھوٹا بیٹا 18 سال کا نہیں ہو جاتا اس وقت تک فیصلے پر عمل کرنا ممکن نہیں تھا اس کو بڑے ہو کر اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا تھا کہ ایا قاتل کو معاف کر دیا جائے یا اس سے اپنے باپ کے خون کا بدلہ لیا جائے علی بن عبدالرحمن نے 18 سال کا یہ لمبا وقت اس کشمکش میں گزارا کہ ایا اس کو مقتول کے ورثاء اور اس کے گھر والے معاف کریں گے یا اسے قتل کی سزا ملے گی ابو مشہود کا چھوٹا بیٹا جو اب یتیم ہو چکا تھا اور اس کا نام بھی یتیم رکھا گیا تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وقت گزرتا رہا اور بالآخر پھر ایک دن ایا جب یتیم کی عمر 18 سال ہو چکی تھی اور اب اسے اپنے بھائیوں کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا تھا کہ باپ کے قاتل کو معاف کرنا ہے یا اس سے بدلہ لینا ہے وہاں کے دستور کے مطابق قبائل کے سردار اور بڑے افراد جمع ہوئے انہوں نے ورثاء سے کہا خون بہا یعنی دیت لے لیں اور قاتل کو معاف کر دیں دیت کیا ہے اس کو اس طرح سمجھیں کہ مرنے والے کے رشتہ داروں کے پاس تین طریقے ہوتے ہیں ایک یہ کہ جان کے بدلے جان یعنی وہ تقاضا کرتے ہیں کہ قاتل کو قتل کیا جائے اور یہ طریقہ قصاص کہلاتا ہے دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قاتل کو بغیر کسی بدلے کے معاف کر دیں جبکہ تیسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ قاتل سے کچھ قیمت لیکر اس کے بدلے معاف کر دیا جائے اسلام میں یہ ہی طریقہ دیت کہلاتا ہے اس وقت کے قانون کے مطابق دیت صرف تین قسم کے مالوں سے ادا کی جاتی تھی نمبر ایک سو عدد اونٹ نمبر دو ایک ہزار دینار اور نمبر تین 10 ہزار درہم۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ اس کی شرائط فکس تھیں اور قاتل کو اختیار ہے کہ ان تینوں میں سے جو چاہے ادا کرے بہرحال ورثاء نے انکار کر دیا کہ خون بہا وہ قبول نہیں کریں گے رقم کی بولی لگتی گئی اور علی بن عبدالرحمن کے قبیلے نے 10 لاکھ ریال تک دینے کا اعلان کر دیا مگر مقتول کے ورثاء راضی نہیں ہوئے علی بن عبدالرحمن جب جیل گیا تھا تو اس وقت اس کی عمر 42 سال تھی اور وہ اس وقت جوان تھا اور اب اس کی عمر 60 برس کی ہو چکی ہے اسی دوران اس نے جیل میں حلقہ تحفیظ القران کے ذریعے قران پاک پڑھنا سیکھ لیا تھا اب ایک طویل انتظار کے بعد وہ وقت اگیا جب اس کی قسمت کا فیصلہ ہونا تھا ادھر اس کے قبیلے کے لوگ مسلسل معافی کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے مگر اس کی کوئی صورت بظاہر بنتی نظر نہیں ارہی تھی جب ساری کوشش ہوچکی تو علی بن عبدالرحمن کے قبیلے والے تھک ہار کر صبر کرتے ہوئے خاموش ہوگئے بالآخر ایک دن صبح سویرے جیل کے حکام نے علی بن عبدالرحمن کو بلایا اور کہا کہ صلح کی ساری کوششیں ناکام ہو گئی ہیں لہذا عدالتی فیصلے کے مطابق تمہاری سزا کا وقت ہوگیا ہے لہذہ کل تمہیں سزائے موت دے دی جائے گی علی بن عبدالرحمن زندگی سے ویسے ہی مایوس اور نا امید ہو چکا تھا لہذا یہ احکامات سن کر اسے ذرا سا بھی خوف محسوس نہیں ہوا دراصل 18 سال جیل میں رہنے کے بعد اس کا سارا خوف اور ساری امید ویسے ہی ختم ہو چکی تھی کیونکہ وہ 18 سال سے روزانہ انہی سوچوں میں گم رہتا تھا یہی اس کے ذہن میں چلتا رہتا تھا کہ ایک دن بچہ بڑا ہوگا اور اپنے باپ کے قاتل کی سزا کا فیصلہ کرے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب علی بن عبدالرحمن کو یقین تھا کہ کل کا دن اس کی زندگی کا آخری دن ہوگا اس نے اپنی انکھیں بند کر لی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور ماضی کی یادوں میں کھو گیا اسے جتنا قران یاد تھا اسے پڑھنے لگا اس نے اپنی زندگی کی اخری رات ذکر و اذکار و نوافل میں گزاری صبح ہوتے ہی جیلر اگیا اور علی کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئی اس کے ساتھیوں نے اشک بار انکھوں سے اسے الوداع کہا اس نے بڑی حسرت کے ساتھ ان دیواروں پر اخری نظر ڈالی اور پولیس کی کڑی نگرانی میں چل پڑا پھر پولیس کی گاڑی کا دروازہ کھلا اور اسے اندر ڈال دیا گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی میدان قصاص میں اسے پہنچا دیا گیا اس کی آنکھو ں پر پٹی بندھی ہوئی تھی مگر لوگوں کی اوازیں اس کے کانوں میں مسلسل ا رہی تھی خمیص مشیت کا مرکزی چوک تھا مرکزی جگہ تھی سب لوگ وہاں پہ جمع تھے لوگ بڑی تعداد میں علی بن عبدالرحمان کے پھانسی کا منظر دیکھنے کے لیے ائے ہوئے تھے اس کے رشتہ دار عزیز و اقارب سب ایک دن پہلے ہی اس سے اخری ملاقات کر چکے تھے ہھر اسے بٹھا دیا گیا اور اہلکار یعنی فیصلہ سنانے والے نے اس کے سزا کا اعلان کیا اس نے جو اعتراف جرم کیا تھا اس کا بھی اعلان ہوا قاضی کا فیصلہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سب سنایا گیا اور سب لوگ بڑے غور سے سن رہے تھے جب بات مکمل ہوئی تو پھر جلاد کو حکم دیا گیا کہ اب مجرم کا سر قلم کر دیا جائے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جلاد اگے بڑھا اس نے تلوار اپنے میان سے نکالی علی انکھیں بند کر کے کلمہ پڑھتے ہوئے بس اسی انتظار میں تھا کہ کب تلوار ائے اور اس کا قصہ تمام کرے کہ اتنے میں اچانک ایک اواز گونجی کہ جاؤ میں نے تمہیں اللہ کی رضا کے لیے معاف کر دیا لیکن یہ کون تھا ؟ یہ کس کی اواز تھی ؟ لوگ حیرت اور تجسس سے یہاں وہاں دیکھنے لگے کہ آخر عین وقت پر یہ کون بولا ؟ لیکن یہ کوئی اور نہیں تھا بلکہ یہ آواز مقتول کے بڑے بیٹے کی اواز تھی لوگ جو وہاں پر علی کی پھانسی کا منظر دیکھنے ائےتھے اب اچانک وہ علی کی معافی کا اعلان سن رہے تھے لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا لیکن عین آخری لمحہ پر مقتول کے بڑے بیٹے نے معاف کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ وہاں پر موجود ہر شخص کی توقع اور سوچ کے خلاف تھا سارا چوک اللہ اکبر اللہ اکبر کی اواز سے گونج رہا تھا لا الہ الا اللہ ہر شخص کی زبان پر تھا علی سمیت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسے معافی مل سکتی ہے علی اس بے یقینی کے عالم میں بے ہوش ہو چکا تھالہذہ اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا گیا اور دوبارہ جیل پہنچا دیا گیا کیونکہ رہائی سے پہلے کی قانونی کاروائی ابھی باقی تھی بالآخر کچھ دنوں میں جب ساری قانونی کاروائی مکمل ہوئی تو اخر کار وہ دن بھی ایا جب علی کو 18 سال بعد جیل سے رہائی ملی وہ جیل سے رہائی نہیں تھی وہ ایک نئی زندگی کی شروعات تھی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جیل سے باہر آکر علی بن عبدالرحمن سب سے پہلے کیا کرتا ہے وہ سب سے پہلے ابو مشہود کے گھر گیا تاکہ ان کا شکریہ ادا کرے وہاں پہنچ کر اس نے اس کے بڑے بیٹے سے سوال کیا کہ آخر آخری وقت پر آپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا ؟ تو مقتول کے بڑے بیٹے مشہود نے علی کو بتایا کہ تمہاری فیملی کی طرف سے ہمیں 10 لاکھ ریال کی پیشکش دی گئی تھی اور بعد میں زمین کا حصہ بھی دینے کی افر کی گئی تھی اس کے علاوہ مجھے نہ جانے کتنے ہی لوگوں نے معاف کرنے کا مشورہ دیا مگر میں نے ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا پھر ہم سارے گھر والے اکٹھے ہوئے اور میرے تمام اسمبلی ممبر نے مجھے تحریری طور پر لکھ کر دیا کہ میں جو بھی فیصلہ کروں گا انہیں منظور ہوگا میرے پاس جو بھی سفارش لے کر اتا میرے غصے میں مزید اضافہ ہو جاتا میری انکھوں کے سامنے میری والد صاحب کی شکل آجاتی مجھے بدلہ لینے پر ابھارتی لہذا میں نے ہر سفارش اور مشورہ کو ٹھکرا دیا میرا ایک ہی جواب ہوتا کہ ہمیں رقم نہیں چاہیے ہم بدلہ چاہتے ہیں صرف بدلہ اور یوں میں نے سب کو انکار کر دیا پھر نہ جانے ایک دن پھر ہم سارے گھر والے اکٹھے ہوئے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ اگر ہم قاتل کو اللہ کی رضا کی خاطر معاف کر دیں اور یہ ہمارے والد کی طرف سے صدقہ ہو جائے تو کیسا ہم نے سب نے بہت غور و فکر کیا ایک لمبی بحث بھی ہوئی لیکن اس کے بعد بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ ہمیں اللہ کی رضا کے لیے اپ کو معاف کر دینا چاہیے ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ابھی کسی کو اس بات کا علم نہیں ہونا چاہیے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ادھر عدالتی کاروائی جا ری تھی اور ہم سے بارہا یہ پوچھا گیا کہ صلح کی کوئی امید یا صورت ہے مگر میں نے ہر دفعہ مکمل طور پر انکار کر دیا یہاں تک کہ تمہاری سزا کا حکم نامہ بھی جاری ہو گیا پھر پوچھا گیا کہ میں معاف کرتا ہوں یا قصاص لینا چاہتا ہوں میں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا اور قصاص لینے پر ہی اصرار کیا اور پولیس والوں سے کہا کہ میں اپنے بھائیوں اور عزیز و اقارب سمیت قصاص کے وقت حاضر رہوں گا پھر جب تمہیں میدان قصاص میں لایا گیا تو اس وقت تمہاری انکھوں پر پٹی بندی ہوئی تھی اور تم ہمیں دیکھ نہیں رہے تھے عدالت اہلکار نے تمہارا جرم اور قاضی کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور پھر جلاد نے تلوار نکال لی وہ تمہاری گردن مارنے ہی جا رہا تھا کہ میں نے ہاتھ کے اشارے سے روکا اور اگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ میں نے اللہ کی رضا کے لیے تمہیں معاف کر دیا اس نے کہا کہ میں کسی شخص سے کوئی تعریف نہیں چاہتا تھا میں نے جو بھی کیا اللہ کی رضا کے لیے کیا اگر میں چاہتا میں شہرت چاہتا تو میرے پاس سفارش ا رہی تھی مجھے 10 لاکھ ریال کی پیشکش ہوئی تھی مگر میں نے یہ صرف اپنے والد صاحب کی طرف سے صدقہ کیا ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک اس کو قبول فرمائے اور یوں ابو مشہود کے بیٹے مشہود نے ایک تاریخی فیصلہ کرکے اپنے قبیلے کی تاریخ میں ایک سنہری باب رقم کیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تاریخ اسلام کے اس دلچسپ اور حیرت انگیز واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کسی وجہ سے یا شیطان کے بہکاوے میں آکر انسان کوئی جرم کرلے لیکن بعد میں اسے ندامت ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے اس جرم کے بدولت ملنے والی سزا میں کس طرح اس کی مدد کرکے اسے دوبارہ زندگی کی مہلت عطا کردیتا ہے اور جو انسان اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو اللہ کی مرضی سمجھ کر اسے قبول کرتا ہے اور ظلم کرنے والے ظالم کو صرف اپنے رب تعالی کی خاطر اور اس کی رضا کے لئے اسے معاف کردیتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ رب تعالی کے یہاں اتنا مقبول ہوجاتا ہے کہ رہتی دنیا تک اس کے اس فیصلہ کو وہ تاریخ کا حصہ بنا دیتا ہے اور آنے لوگوں کے لئے وہ ایک سبق بن جاتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارا ہر وہ نیک کام جو ہم صرف اپنے رب تعالی کی رضا کے لئے کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے ہم زندگی میں کوئی بھی کام کریں تو صرف اللہ کی رضا کی خاطر کریں اس کے حبیب کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر کریں تاکہ ہماری یہ عارضی زندگی بھی خیروعافیت سے گزر جائے اور ہمیشہ قائم رہنے والی قیامت کی زندگی بھی جنتی لوگوں کے ساتھ بسر ہو جائے دعا ہے کہ اللہ رب الکائنات ہم سے ہر کام اپنے احکامات کے مطابق اور اپنی رضا کے لئے کروائے اور اس کے سبب ہمیں اپنا قرب عطا کرے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
محمد یوسف برکاتی